سانحہ
درد و غم حیات کا درماں چلا گیا
وہ خضر عصر و عیسیٔ دوراں چلا گیا
ہندو چلا گیا نہ مسلماں چلا گیا
انساں کی جستجو میں اک انساں چلا گیا
رقصاں چلا گیا نہ غزل خواں چلا گیا
سوز و گداز و درد میں غلطاں چلا گیا
برہم ہے زلف کفر تو ایماں سرنگوں
وہ فحر کفر و نازش ایماں چلا گیا
بیمار زندگی کی کرے کون دل دہی
نباض و چارہ ساز مریضاں چلا گیا
کس کی نظر پڑے گی اب عصیاں پہ لطف کی
وہ محرم نزاکت عصیاں چلا گیا
وہ راز دار محفل یاراں نہیں رہا
وہ غم گسار بزم عریفاں چلا گیا
اب کافری میں رسم و راہ دلبری نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایماں چلا گیا
اک بے خود سرور دل و جاں نہیں رہا
اک عاشق صداقت پنہاں چلا گیا
با چشم نم ہے آج زلیخائے کائنات
زنداں شکن وہ یوسف زنداں چلا گیا
اے آرزو وہ چشمۂ حیواں نہ کر تلاش
ظلمات سے وہ چشمۂ حیواں چلا گیا
اب سنگ و خشت و خاک و خذف سر بلند ہیں
تاج وطن کا لعل درخشاں چلا گیا
اب اہرمن کے ہاتھ میں ہے تیغ خوں چکاں
خوش ہے کہ دست و بازوئے یزداں چلا گیا
دیو بدی سے معرکۂ سخت ہی سہی
یہ تو نہیں کہ زور جواناں چلا گیا
کیا اہل دل میں جذبۂ غیرت نہیں رہا
کیا عزم سر فروشیٔ مرداں چلا گیا
کیا باغیوں کی آتش دل سرد ہو گئی
کیا سرکشوں کا جذبۂ پنہاں چلا گیا
کیا وہ جنون و جذبۂ بیدار مر گیا
کیا وہ شباب حشر بداماں چلا گیا
خوش ہے بدی جو دام یہ نیکی پہ ڈال کے
رکھ دیں گے ہم بدی کا کلیجہ نکال کے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |