سامنے اس صف مژگاں کہ میں کل جاؤں گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سامنے اس صف مژگاں کہ میں کل جاؤں گا
by نظیر اکبر آبادی

سامنے اس صف مژگاں کہ میں کل جاؤں گا
چھد تُو جاؤں گا پر آگے سے نہ ٹل جاؤں گا

تیغ اس ابرو کی جب معرکہ آرا ہوگی
اپنی جاں بازی کہ گوہر میں اگل جاؤں گا

ہے کف پا وُہ مصفا کے جسے دھیان میں لا
پائے نظارہ یہ کہتا ہے پھسل جاؤں گا

مُجھ کو دیتے ہو عبث خانۂ زنجیر میں جا
جوں صدا میں ابھی اس گھر سے نکل جاؤں گا

آپ سے چاہوں تُو اٹھ جاؤں گا اس بزم سے میں
اُور اِک ہوں بھی کرو گے تو مچل جاؤں گا

گرچہ ہوں بے حرکت ضعف سے جوں آتش سنگ
پر جُو چھیڑا تُو شرر ساں میں اچھل جاؤں گا

موم ہوں میں تُو بتاں مُجھ کو نہ سمجھو آہن
ٹک بھی تم گرم ہوئے تُو میں پگھل جاؤں گا

غصہ ہو کر تم اگر لاکھ طرح بدلو رنگ
میں وُہ یک رنگ نہیں ہوں جُو بدل جاؤں گا

بیکلی آج بھی واں لے گئی مُجھ کو تُو نظیرؔ
میں نے ہر چند یہ چاہا تھا کے کل جاؤں گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse