Jump to content

سامنے آئنہ تھا مستی تھی

From Wikisource
سامنے آئنہ تھا مستی تھی
by عزیز لکھنوی
317979سامنے آئنہ تھا مستی تھیعزیز لکھنوی

سامنے آئنہ تھا مستی تھی
ان پر اک شان خود پرستی تھی

مجھ کو کعبہ میں بھی ہمیشہ شیخ
یاد ایام بت پرستی تھی

صرف دل ہی نہیں جلا میرا
ذرہ ذرہ میں اس کے بستی تھی

کیوں زلیخا تری عدالت میں
حسن کی جنس ایسی سستی تھی

سوجھتا تھا نہ انتظار میں کچھ
دیکھنے کو نگہ ترستی تھی

دیکھنے ہم گئے تھے قبر عزیزؔ
ہائے کیا بیکسی برستی تھی


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.