سامنا ہے نگاہ قاتل کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سامنا ہے نگاہ قاتل کا
by نواب امراوبہادر دلیر

سامنا ہے نگاہ قاتل کا
دیکھنا حوصلہ مرے دل کا

ہائے کہنا ادا سے قاتل کا
ہم کو دکھلاؤ رقص بسمل کا

چلے منہ پھیر کر وہ مقتل سے
حال دیکھا گیا نہ بسمل کا

جوش وحشت میں تیرا دیوانہ
کیوں نہ مشتاق ہو سلاسل کا

کھینچ کر ان کو میرے گھر لایا
اثر آخر کو جذب کامل کا

شیخ خاموش ہو خدا کے لئے
ذکر رندوں میں کیا مسائل کا

کاش وہ چٹکیاں ہی لیں آ کر
مشغلہ کچھ تو ہو دکھے دل کا

بوسہ دے ڈالو حسن کی خیرات
رد نہ کیجے سوال سائل کا

اے صبا کر بھی قیس پر احسان
تو ہی پردہ اٹھا دے محمل کا

شک تھا مٹی کا نہ ہو عاشق کے
عطر کیوں کر وہ سونگھتے گل کا

نزع میں بھی دلیرؔ آئے نہ وہ
رہ گیا دل میں حوصلہ دل کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse