ساقی یہ پلا اس کو جو ہو جام سے واقف

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ساقی یہ پلا اس کو جو ہو جام سے واقف
by نظیر اکبر آبادی

ساقی یہ پلا اس کو جو ہو جام سے واقف
ہم آج تلک مے کے نہیں نام سے واقف

مستی کے سوا دور میں اس چشم سیہ کے
کافر ہو جو ہو گردش ایام سے واقف

مر کر بھی تہ خاک نہ آسودہ ہوئے آہ
اے عشق نہ تھے ہم ترے انجام سے واقف

صیاد کی الفت سے پھنسے آن کے ورنہ
تھے کاہے کو ہم اس قفس و دام سے واقف

ملنے کا پیام اس سے کہو جا کے عزیزو
جو اس کے نہ ہو وصل کے پیغام سے واقف

اوروں سے قسم کھائیے اور ہم تو مری جاں
ہیں خوب تمہاری قسم اقسام سے واقف

کوئی نہیں کرتا جو کیا تو نے نظیرؔ آہ
دل اس کو دیا جس کے نہیں نام سے واقف

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse