ساقی گلفام باصد اہتمام آ ہی گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ساقی گلفام باصد اہتمام آ ہی گیا
by مجاز لکھنوی

ساقی گلفام باصد اہتمام آ ہی گیا
نغمہ بر لب خم بہ سر بادہ بہ جام آ ہی گیا

اپنی نظروں میں نشاط جلوۂ خوباں لیے
خلوتی خاص سوئے بزم عام آ ہی گیا

میری دنیا جگمگا اٹھی کسی کے نور سے
میرے گردوں پر مرا ماہ تمام آ ہی گیا

جھوم جھوم اٹھے شجر کلیوں نے آنکھیں کھول دیں
جانب گلشن کوئی مست خرام آ ہی گیا

پھر کسی کے سامنے چشم تمنا جھک گئی
شوق کی شوخی میں رنگ احترام آ ہی گیا

میری شب اب میری شب ہے میرا بادہ میرے جام
وہ مرا سرو رواں ماہ تمام آ ہی گیا

بارہا ایسا ہوا ہے یاد تک دل میں نہ تھی
بارہا مستی میں لب پر ان کا نام آ ہی گیا

زندگی کے خاکۂ سادہ کو رنگیں کر دیا
حسن کام آئے نہ آئے عشق کام آ ہی گیا

کھل گئی تھی صاف گردوں کی حقیقت اے مجازؔ
خیریت گزری کہ شاہیں زیر دام آ ہی گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse