ساقی و واعظ میں ضد ہے بادہ کش چکر میں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ساقی و واعظ میں ضد ہے بادہ کش چکر میں ہے
by احسن مارہروی

ساقی و واعظ میں ضد ہے بادہ کش چکر میں ہے
تو بہ لب پر اور لب ڈوبا ہوا ساغر میں ہے

روک لے اے ضبط جو آنسو کہ چشم تر میں ہے
کچھ نہیں بگڑا ہے اب تک گھر کی دولت گھر میں ہے

دب گیا تھا میرے مرنے سے جو اے محشر خرام
کیا وہی خوابیدہ فتنہ صورت محشر میں ہے

جس کو تو چاہے جلا دے جس کو چاہے مار دے
وہ بھی تیری بات میں یہ بھی تری ٹھوکر میں ہے

دل کے مٹ جانے سے جوش عشق گھٹ سکتا ہے کیا
دل سے کیا مطلب کہ یہ سودا تو میرے سر میں ہے

مانتا ہے آستاں کو تیرے کعبہ اور کون
یہ ہمارا ہی نشان سجدہ سنگ در میں ہے

احسنؔ آوارہ قسمت کی نہ پوچھو گردشیں
اپنے گھر بیٹھا ہوا تقدیر کے چکر میں ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse