ساقی ظہور صبح و ترشح ہے نور کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ساقی ظہور صبح و ترشح ہے نور کا
by نظیر اکبر آبادی

ساقی ظہور صبح و ترشح ہے نور کا
دے مے یہی تو وقت ہے نور و ظہور کا

کوچہ میں اس کے جس کو جگہ مل گئی وہ پھر
مائل ہوا نہ صحن چمن کے سرور کا

یہ گل جو ہم نے ہاتھ پہ کھائے ہیں روبرو
ہم کو یہی ملا ہے تبرک حضور کا

سیماب جس کو کہتے ہیں سیماب یہ نہیں
دل آب ہو گیا ہے کسی ناصبور کا

مے پی کے عاشقی کے خرابات میں نظیرؔ
نے ڈر ہے محتسب کا نہ صدر الصدور کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse