ساقی شراب ہے تو غنیمت ہے اب کی اب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ساقی شراب ہے تو غنیمت ہے اب کی اب
by نظیر اکبر آبادی

ساقی شراب ہے تو غنیمت ہے اب کی اب
پھر بزم ہوگی جب تو سمجھ لیجو جب کی جب

ساغر کے لب سے پوچھیے اس لب کی لذتیں
کس واسطے کہ خوب سمجھتا ہے لب کی لب

کم فرصتی سے عمر کی اپنی ہزار حیف
جتنی تھیں خواہشیں وہ رہیں دل میں سب کی سب

سن کر وہ کل کی آج نہ ہو کس طرح خفا
اے نا شناس طبع کہی تو نے کب کی کب

پھولا ہوا بدن میں سماتا نہیں نظیرؔ
وہ گل بدن جو پاس رہا اس کے شب کی شب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse