ساقی خم خانہ تھا جو صبح و شام

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ساقی خم خانہ تھا جو صبح و شام
by اسماعیل میرٹھی

ساقی خم خانہ تھا جو صبح و شام
روز آدینہ تھا مسجد میں امام

جس نے چشم مست ساقی دیکھ لی
تا قیامت اس پہ ہشیاری حرام

اس لب جاں بخش کی باتیں تھیں یا
معجزات عیسی گردوں مقام

ہو گیا اس کو قیامت کا یقیں
جس نے دیکھا سرو قامت کا خرام

چشمۂ آب بقا کی لہر تھی
وہ عبارت وہ اشارت لا کلام

مرحبا عطر گریباں کی شمیم
ہے معطر جس سے روحانی مشام

تھی زباں یا قاطع اوہام یا
ذوالفقار حیدری تھی بے نیام

جس نے دیکھا نرگس شہلا کا خواب
اس نے پایا رمز قلبی لا ینام

قال اتممت علیکم نعمتی
ہو گئیں سب خوبیاں اس پر تمام

جس نے چاٹی عتبۂ علیا کی خاک
تلخیٔ دوراں سے ہو کیوں تلخ کام

اے صبا صحرائے جاں میں کر تلاش
کس طرف ہیں وہ سُرادق وہ خیام

خلوت لیلیٰ میں تو گزرے اگر
تو یہ کہہ دینا ہمارا بھی پیام

تشنگان‌ شوق ہیں گم کردہ راہ
تو بھی چل بہر خدا دو چار گام

بحر میں برپا ہوا جوش و خروش
حبذا رشحات کاسات الکرام

سونپ دی تھی دست قدرت نے تجھے
ناقۂ لیلائے‌ معنی کی زمام

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse