ساقی ترے بغیر ہے محفل سے دل اچاٹ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ساقی ترے بغیر ہے محفل سے دل اچاٹ
by امداد علی بحر

ساقی ترے بغیر ہے محفل سے دل اچاٹ
سو جیسے جی اداس ہے سو دل سے دل اچاٹ

سوئے عدم پھرے چلے جاتے ہیں قافلے
سب ہم سفر ہیں زیست ہے منزل سے دل اچاٹ

جس روز سے کہ شوق اسیری ہوا مجھے
صیاد ہے شکار عنادل سے دل اچاٹ

ٹھکرائے بھی نہ آ کے لحد فاتحہ کجا
مر کر ہوا ہوں اس بت قاتل سے دل اچاٹ

جز مرگ کچھ نہیں ہے تپ ہجر کا علاج
ہم نقش چاٹ کر ہوئے عامل سے دل اچاٹ

کانٹوں پہ مثل قیس کہاں تک رواں دواں
لیلاے‌ٔ جاں ہے جسم کی محمل سے دل اچاٹ

دوزخ مجھے بہشت کے بدلے قبول ہے
ایسا ہوں ایک حور شمائل سے دل اچاٹ

جھنکار سے میں چار قدم آگے جاؤں گا
زندان میں ہوا جو سلاسل سے دل اچاٹ

مجنوں کی چال لیلیٰ اگر دو قدم چلے
تابوت دل پسند ہو محمل سے دل اچاٹ

قاتل ہمارے دل کو تڑپتا نہ چھوڑ جا
اک دم کے واسطے نہ ہو بسمل سے دل اچاٹ

اے بحرؔ یار ساتھ نہیں جائیے کہاں
گلشن سے جی اداس ہے محفل سے دل اچاٹ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse