ساقیا کس کو ہوس ہے کہ پیو اور پلاؤ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ساقیا کس کو ہوس ہے کہ پیو اور پلاؤ
by برجموہن دتاتریہ کیفی

ساقیا کس کو ہوس ہے کہ پیو اور پلاؤ
اب وہ دل ہی نہ رہا اور امنگیں نہ وہ چاؤ

رہنے دے ذکر خم زلف مسلسل کو ندیم
اس کے تو دھیان سے بھی ہوتا ہے دل کو الجھاؤ

کوچۂ عشق میں جانا نہ کبھی بھول کے تم
ہے وہاں آب دم تیغ کا ہر جا چھڑکاؤ

کیا ضرورت کہ حسینوں کے دہن کی خاطر
تم کمر باندھ کے ملک عدمستاں تک جاؤ

کیوں مٹو نقش قدم ساں کسی رفتار پہ تم
بیٹھے بٹھلائے غرض کیا ہے کہ اک حشر اٹھاؤ

کس طرح کوئی انہیں راہ پہ لائے یا رب
اور برگشتہ ہوئے جاتے ہیں جتنا سمجھاؤ

نا خدا بن کے خدا پار کر اس کا بیڑا
بے طرح پھنس گئی ہے ہند کی منجدھار میں ناؤ

یہ نہیں ہے کہ نہیں قابلیت کچھ ان میں
ہمتیں ہارنے کا ہو گیا کچھ ان کا سبھاؤ

غرب ہے مشرق خورشید علوم و حکمت
اب یہ لازم ہے کہ لو اپنی ادھر کو ہی لگاؤ

جو قدامت پہ اڑے بیٹھے ہیں وہ ہیں گمراہ
ان سے بچنا ہیں غضب ان کے اتار اور چڑھاؤ

ایشیا کے تو تمہیں نام سے کہنا ہی نہیں
وہی صورت ہے اسے کتنا ہی الٹو پلٹاؤ

رسم و مذہب سے نہ تم غیر بنو آپس میں
ہو چلت میں کوئی یا ٹھاہ میں سم پر مل جاؤ

بس کرو رہنے بھی دو وعظ و نصیحت کیفیؔ
ناصحوں کو تو یہاں پڑتی ہیں بازار کے بھاؤ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse