ساقیا ابر ہے دے جام شتاب ایک پر ایک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ساقیا ابر ہے دے جام شتاب ایک پر ایک
by داغ دہلوی

ساقیا ابر ہے دے جام شتاب ایک پر ایک
آج محفل میں گرے مست شراب ایک پر ایک

گل بازی ہے حسینوں میں مرا افسانہ
پھینک دیتا ہے محبت کی کتاب ایک پر ایک

جوش پر ہے جو ترا حسن تو اے پردہ نشیں
روز کرتا ہے غضب بند نقاب ایک پر ایک

توڑ اس طرح سے اے نالۂ دل ساتوں فلک
کہ گریں ٹوٹ کے یہ خانہ خراب ایک پر ایک

لب جو سیر کو آیا ہے جو وہ بحر جمال
ٹوٹا پڑتا ہے تماشے کو حباب ایک پر ایک

یاد آتی ہے انہیں دم بہ دم اک بات نئی
روز آتا ہے مرے خط کا جواب ایک پر ایک

جب کبھی داغؔ کیا ہم نے سوال بوسہ
سیکڑوں اس نے دئے سخت جواب ایک پر ایک

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse