سارے کشتوں سے جدا ڈھنگ اضطراب دل کا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سارے کشتوں سے جدا ڈھنگ اضطراب دل کا ہے
by انوری جہاں بیگم حجاب

سارے کشتوں سے جدا ڈھنگ اضطراب دل کا ہے
کیوں نہ ہو بسمل بھی تو کس چلبلے قاتل کا ہے

چھپ نہیں سکتا وہ خون اپنے دل بسمل کا ہے
مٹ نہیں سکتا جو دھبہ دامن قاتل کا ہے

امتحاں مد نظر کس منچلے بسمل کا ہے
معرکہ آرا جو یوں ہر ناز اس قاتل کا ہے

بے اجازت اٹھ کے سینہ سے لگائے آپ کو
حوصلہ اتنا بھی اک ارمان والے دل کا ہے

آپ کو یاد آ گئیں ہیں کس کی بزم آرائیاں
حضرت دل کہیے تو قصد آج کس محفل کا ہے

اس طرف مچلا ہوا ہے وصل میں وہ چلبلا
اس طرف جوش اضطراب آرزوئے دل کا ہے

وصل کی شب خون کرنا آرزوئے وصل کا
او تمناؤں کے دشمن کام یہ قاتل کا ہے

معرکہ آرائیاں ہیں آج حسن و عشق کی
سامنا اس جلوہ گہ میں دل ربا سے دل کا ہے

اپنے آدھی رات کو آنے کا باعث کیوں بنے
وہ کہیں قائل بھی جذب الفت کامل کا ہے

موت آئی ہے مجھے او بحر خوبی وصل میں
میرا بیڑا ڈوبنے والا لب ساحل کا ہے

سینہ سے سینہ ملا دینا تو کچھ مشکل نہیں
یار مشکل تو ترے دل سے ملانا دل کا ہے

شوخیٔ قاتل میں ہے بسمل کا رنگ اضطراب
رنگ بسمل کی تڑپ میں شوخئ قاتل کا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse