سارے عشاق سے ہم اچھے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سارے عشاق سے ہم اچھے ہیں
by برجموہن دتاتریہ کیفی

سارے عشاق سے ہم اچھے ہیں
ہاں ترے سر کی قسم اچھے ہیں

الجھا ہی رہنے دو زلفوں کو صنم
جو نہ کھل جائیں بھرم اچھے ہیں

کوئی جنچتا نہیں اس بت کے سوا
اور بھی یوں تو صنم اچھے ہیں

حشر تک مجھ کو جلائے رکھا
یہ حسینوں کے بھی دم اچھے ہیں

بحث ہو جائے تو سب پر کھل جائے
ہیں بھلے آپ کہ ہم اچھے ہیں

غیر کی کچھ نہیں شرکت اس میں
ہم کو یہ تیرے ستم اچھے ہیں

جیتے ہیں آرزوئے قتل میں ہم
دم ترے تیغ دو دم اچھے ہیں

نہ ہوا کعبہ کا دیدار نصیب
ہم سے آہوئے حرم اچھے ہیں

خوب ہے وقت جو کٹ جاتا ہے
جو گزر جاتے ہیں دم اچھے ہیں

پوچھتے کیا ہیں مزاج کیفیؔ
آپ کا لطف و کرم اچھے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse