سارے عالم میں تیری خوشبو ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سارے عالم میں تیری خوشبو ہے
by آسی غازی پوری

سارے عالم میں تیری خوشبو ہے
اے میرے رشک گل کہاں تو ہے

برچھی تھی وہ نگاہ دیکھو تو
لہو آنکھوں میں ہے کہ آنسو ہے

ایک دم میں ہزار دفتر طے
چشم حسرت غضب سخن گو ہے

تو ہی تو اور بال بال اپنا
فاختہ اور شور کوکو ہے

تجھ کو دیکھے پھر آپ میں رہ جائے
دل پر اتنا کسی کو قابو ہے

جوش اشک و تصور قد یار
سرو گویا کھڑا لب جو ہے

حد نہ پوچھو ہماری وحشت کی
دل میں ہر داغ چشم آہو ہے

جس نے مومن بنا لیا ہم کو
وہ تمہارا ہی مصحف رو ہے

جس کے کشتے ہیں زندۂ جاوید
وہ تمہاری ہی تیغ ابرو ہے

دل جو بے مدعا ہو کیا کہنا
یہی ویرانہ عالم ہو ہے

پل بھی ہے فخر جونپور آسیؔ
خواب گاہ جناب شیخو ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse