سارے عالم میں تیری خوشبو ہے
Appearance
سارے عالم میں تیری خوشبو ہے
اے میرے رشک گل کہاں تو ہے
برچھی تھی وہ نگاہ دیکھو تو
لہو آنکھوں میں ہے کہ آنسو ہے
ایک دم میں ہزار دفتر طے
چشم حسرت غضب سخن گو ہے
تو ہی تو اور بال بال اپنا
فاختہ اور شور کوکو ہے
تجھ کو دیکھے پھر آپ میں رہ جائے
دل پر اتنا کسی کو قابو ہے
جوش اشک و تصور قد یار
سرو گویا کھڑا لب جو ہے
حد نہ پوچھو ہماری وحشت کی
دل میں ہر داغ چشم آہو ہے
جس نے مومن بنا لیا ہم کو
وہ تمہارا ہی مصحف رو ہے
جس کے کشتے ہیں زندۂ جاوید
وہ تمہاری ہی تیغ ابرو ہے
دل جو بے مدعا ہو کیا کہنا
یہی ویرانہ عالم ہو ہے
پل بھی ہے فخر جونپور آسیؔ
خواب گاہ جناب شیخو ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |