سارس کی تارک الوطنی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

کتاب[edit]

ارتشی کے وسیع میدان میں چاندنی رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی اور دامن کوہ میں خاموش چشمہ کے کنارے ایک سارس کا جوڑا تارک الوطن ہونے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ گو ان کے دماغ (یعنی احساس انسانی کا مرکز) اس قوت سے محروم تھے جو اس قصد کے نقائص و تکالیف ان کی آنکھوں کے سامنے پیش کردیتی، تاہم وطن کی مفارقت کا اثر ان کے اعضائے جسمانی، ان کی حرکات سکنات سے ظاہر تھا۔ دونوں خموشی کے ساتھ کھڑے پہاڑ کی بلند چوٹیوں کو حسرت کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ آبشار بلندی سے گرتے تھے اور اس بھولی بھالی مخلوق کی قوت سامعہ ہوا کے تیز جھونکوں کی بدولت معمول سے زیادہ کام کر رہی تھی۔ دو ڈیڑھ گھنٹہ تک یہ جوڑا قدرت کی اس دلچسپی اور وطن کے در و دیوار کو غور سے دیکھتا رہا، آخر چاند کی روشنی کا انحطاط سارس کی توجہ میں خلل انداز ہوا اور وہ آتش فشاں پہاڑ جو قمر چہار دہم کے اندر صاف و روشن نظر آرہے تھے، دھندلے دکھائی دینے لگے۔

زمین اپنے محور کے گرد چکر کھاتی ہوئی رات کو کنارِ صبح تک لے آئی۔ شیر اور چیتے جن کی دھاڑوں نے تمام جنگل سر پر اٹھا رکھا تھا، اپنے اپنے غاروں میں جانے شروع ہوگئے اور کسی خوش الحان پرند نے تاڑ کے درخت پر سے صبح صادق کا مژدہ سنایا۔

ایک خاص خیال میں اس قدر دیر تک متوجہ رہنے پر بھی نر کی قوت متخیلہ کچھ زیادہ کار آمد نہ ہوئی۔ وہ سوچ نہ سکا کہ غربت میں کیا کیا مصیبتیں پیش آئیں گی اور کیسی کیسی دقتیں اٹھانی پڑیں گی۔ چاند کی روشنی لمحہ بہ لمحہ پھیکی پڑ رہی تھی۔ سارس نے دفعتاً اپنا منہ مادہ کی طرف کیا، اس کے کندھوں پر اپنی گردن رکھی، اس کے کامنی پروں کو جو فاختائی مائل تھے آنکھوں سے لگایا اور اس طرح جذبات قلب پورے کرکے کہنے لگا: “چل چل پیاری مادہ! ایسے میں اڑ چلیں۔ ٹھنڈے ٹھنڈے بہت دور نکل جائیں گے ورنہ مشرقی شہسوار تختِ آسمان پر جلوہ گر ہو جائے گا اور پھر تیرے نازک بازو شاید گرم ہوا کا مقابلہ آسانی سے نہ کرسکیں۔ اٹھ اٹھ من موہنی مادہ چل کھڑی ہو، میری زندگی کی تمام خوشیاں تیرے ان چمکدار پروں میں پوشیدہ ہیں۔ تیرا یہ حسن دلفریب میری زندگی برقرار رکھنے اور مجھ کو ہمیشہ کامیاب بنانے کے لیے کافی ہے”۔

چونکہ سارس اپنے سفر کا ارادہ، اپنی تارک الوطنی کا قصد شام ہی سے ظاہر کر چکا تھا، اس لیے مادہ نے اپنے گلابی مائل سرخ رخسار قریب لاکر پہلے سچی محبت کا جواب دیا اور پھر اس طرح مخاطب ہوئی:

“مجھ کو حکم کی تعمیل میں عذر نہیں مگر کیا کروں قدرت نے میری سرشت میں یہ مادہ ودیعت کیا ہے کہ مرغزار کے پتے پتے کی جدائی، جہاں مَیں چھوٹی سے بڑی ہوئی، محسوس کروں۔ پہاڑ کی چوٹیاں اُس وقت سے میرے سامنے ہیں جب سے میری آنکھ کھلی، آبشاروں کی آوازیں اس وقت سے میرے کانوں میں ہیں جب سے میں ان کو سننے کے قابل ہوئی۔ یہ درختوں کے پتے اور کنار نہر کے خودرو پھول جو ہمیشہ سے میری آنکھوں میں بسے ہوئے ہیں، ان کا فراق مجھے سخت تکلیف دہ ہوگا۔ اُس پار پہنچ کر نئی زمین ہوگی، نیا آسمان، نیا دانہ، نیا پانی؛ مگر یہ سرزمین جس کے چپے چپے اور کونے کونے پر میرے قدم چلے ہیں، مجھ سے چھوٹ جائے گی؛ اور یہ ہوا جس نے مجھ کو تھپک تھپک کر لوریاں دی ہیں مجھ سے کوسوں دور ہوجائے گی۔ آخر مجھے معلوم تو ہو وہ کیا چیز ہے جس نے تم کو ایسا دل برداشتہ کیا کہ وطن جیسی چیز کو عمر بھر کے لیے خیر باد کہتے ہو؟”

سارس: میں نہیں چاہتا کہ ایسی جگہ زندگی بسر کروں جہاں بے وفا اور خود غرض انسان کا گزر ہو سکے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ایسی نفس پرور مخلوق کے خیالات سے متاثر ہو کر میری آئندہ نسل برباد ہو جائے گی۔

مادہ: تم مجھ کو اجازت دو تو میں اس قدر عرض کرنے کی جرأت کروں کہ ہمارا اس حد تک انسان سے نفرت کرنا ایک قسم کی محسن کشی ہے جو ہمارا شیوہ نہیں۔ دنیا بالکل اجاڑ ہوتی، ہم ہی جیسے کائیں کائیں کرنے والے چاروں طرف آباد ہوتے، کائنات کی کل ہستی یہ ہوتی کہ لنگوروں کی چھلانگیں، چیلوں کی چل ، ہرن چکائے، بارہ سنگے، سانپ، مچھلی، کینچوے، کچھوے وغیرہ وغیرہ۔

قدرت کو ضرورت تھی ایک ایسی مخلوق کی جو نظام عالم کی داد دے اور صنعتِ دنیا کو دیکھ کر صناع حقیقی کے کمال کا اعتراف کرے۔ پس انسان کی خلقت ضرورت ہے قدرت کی اور یہ اسی مخلوق کا کام تھا کہ اپنی محنت اور عقل کی بدولت پہاڑوں سے چشمے بہا دیے اور آسمان پر بے پر و بال اس طرح پہنچا کہ چاند تاروں کی حقیقت معلوم کرلی۔ کیا آپ کو اس سے انکار ہے کہ یہ طرح طرح کے میوے، یہ ہرے بھرے کھیت، یہ لہلہاتے ہوئے درخت جن سے ہمارے گرد و پیش کی زمین مالامال ہے، ہم کو محض انسان کی سعی سے میسر ہوئے؛ ورنہ پہاڑوں کے سنگریزے ہماری خوراک ہوتی اور کوہ آتش فشاں کا ملغوبہ ہمارا پانی۔

ایسی اچھی اور کارآمد مخلوق جس کی محنت سے ہم ہر طرح مستفید ہوں، اس قدر نفرت کی مُستوجب نہیں۔

سارس: مگر انسان جیسی دغاباز شے جو تیری نگاہ میں اشرف اور میری رائے میں ارذل ہے، ہرگز پسند کے قابل نہیں۔ اس کی سرشت میں دھوکا، اس کی طینت میں دغا اور اس کی گھٹی میں خود غرضی پڑی ہوئی ہے۔ افسوس میں نے صبح ہی صبح ایک نہایت منحوس چیز کا نام لیا، انسان! کیسا انسان؟ دغا باز مکار! جس کی محبت جھوٹی ،جس کی باتیں بناوٹی، جس کا دل ظلمت کدہ، سچا احساس اس سے کوسوں دور اور اچھے خیال اس سے میلوں پرے۔ دیکھ وہ سورج کی کرنیں پہاڑ کی چوٹیوں پر پڑنے لگیں۔ اب ہمارا یہاں بیٹھنا ٹھیک نہیں۔ افسوس آج کا سفر ملتوی ہوا، چل پہاڑ پر چل اور حیاتِ انسانی کی کیفیت مجھ سے سن۔

آٹھ دس برس کا عرصہ ہوا، میں بچہ ہی سا تھا۔ ایک رات جبکہ چاندنی چاروں طرف چھٹکی ہوئی تھی، میرے باپ نے باہر نکل کر دیکھا؛ درختوں کے پتوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر ایک نور سا برس رہا تھا۔ پیاری بی بی! تجھے کبھی پردیس جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اگر راستہ میں میرا قدیمی مکان پڑا تو میں تجھے دکھاؤں گا کہ وہ کیسا پرفضا مقام ہے۔ دامن کوہ سے چشموں کا اترا اترا کر اور مچل مچل کر چلنا تجھ کو بتا دے گا کہ فطرت نے میری پرورش کے واسطے کیسی دلفریب اور دلچسپ جگہ انتخاب کی تھی۔ ہاں تو شبِ ماہ اپنا بناؤ سنگھار کیے پردۂ دنیا پر جلوہ گر تھی، والد مرحوم کا دل سیر کو چاہا۔ مجھے اور میری ماں کو ساتھ لیا اور ہم تینوں ہوا میں اڑے۔ تاروں نے بساطِ فلک کو جبینِ عروس بنا رکھا تھا۔ ہم کو کسی خاص جگہ پر جانا مقصود نہ تھا، ہوا کے جھونکوں نے پورب کی طرف دھکیل دیا اور ہم چاندنی کا لطف اٹھاتے اسی طرف کو روانہ ہو گئے۔

رات اٹھلا اٹھلا کے اپنا رستہ طے کر رہی تھی۔ ہم جزیرہ ارسیوان میں پہنچے تو ہمارا گزر قصر سلطانی پر ہوا۔ دیکھتے کیا ہیں کہ شہزادہ الیاس بھی ہماری طرح شب ماہ کا لطف اٹھا رہا ہے اور اس کی معشوقہ برابر میں بیٹھی ٹھنک ٹھنک کر باتیں کر رہی ہے۔ الیاس ٹکٹکی باندھے اس کی صورت دیکھ رہا تھا۔ کچھ عجب قسم کی محبت اُس کی آنکھوں سے ٹپک رہی تھی۔ چونکہ محبت کا وہ مادہ ہمارے دماغ اور جمال سے ارفع و اعلیٰ ہے، میں اس کی صراحت سے مجبور ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شہزادی کی ایک ایک ادا الیاس کا کلیجہ مجروح کر رہی ہے۔ وہ دیوانہ وار شہزادی پر نثار ہو رہا تھا، کبھی اس کے نازک ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھتا تھا، کبھی آراستہ و پیراستہ زلف کو سونگھ کر جھومتا ، کچھ دیر تک تو اس طرح قلب مضطرب کو تسکین دی اور پھر بیتاب ہو کر کہنے لگا: “سلطنت کا لطف بھی اسی وقت تک ہے جب تک کہ تو میری آنکھوں کے سامنے ہو، ورنہ شہزادی تمام سامان عیش ہیچ ہے۔ لا گل اندام! اپنے پیارے ہاتھوں سے ایک جام تو دے”۔

شاید عورت کی فطرت ہی میں یہ داخل ہوگا کہ شہزادی الیاس کو اس قدر والہ و شیدا دیکھ کر بے انتہا خوش ہوئی۔ اس کے حسن کی چمک پہلے سے دوچند ہو گئی، گلاب سے رخساروں میں سرخی جھلکنے لگی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ چاہتی تھی کہ آگے بڑھ کر شیشہ و ساغر اٹھائے، الیاس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا: “ان ہاتھوں کو اس قسم کی تکلیف دینا منشائے قدرت کے خلاف ہے”۔ یہ کہہ کر شہزادہ الیاس نے جام بلوریں آگے رکھا، شہزادی ساغر تیار کر رہی تھی کہ اتفاق سے شیشہ ٹوٹا اور کلائی بالکل لہو لہان ہو گئی۔ اس وقت الیاس کی بے چینی بیان نہیں ہوسکتی۔ آنکھ سے آنسو نکل پڑے، رومال بھگو کر کلائی پر باندھا اور کہنے لگا: “اس خون کا ہر قطرہ میرے کلیجہ سے نکل رہا ہے۔ کاش میرا پورا ہاتھ کٹ جاتا، میں مر جاتا، شہید ہو جاتا مگر میری وجہ سے اس سرخ وسفید کلائی کو یہ اذیت نہ ہوتی”۔

شہزادہ یہیں تک پہنچا تھا کہ میری ماں اپنے خاصۂ فطرت کے موافق والد مرحوم کی طرف متوجہ ہوئی اور کہنے لگی: “سچ یہ ہے، انسان سے زیادہ محبت کی قدر کوئی مخلوق نہیں کر سکتی”۔ یہ کہہ کر وہ اور اس کے پیچھے پیچھے ہم باپ بیٹے اڑے اور اپنے گھر کو واپس آئے۔

مجھے ٹھیک یاد نہیں کہ اس واقعہ کے کتنے روز بعد ایک روز میں سمتِ مشرق سے آرہا تھا، رستہ میں جزیرہ ارسیوان پڑا، میرے دل نے گوارا نہ کیا کہ شہزادی کو جس کے ساتھ مجھے اس رات اتنی ہمدردی ہو گئی تھی، بغیر دیکھے چلا جاؤں؛ چنانچہ میں قصر سلطانی پر ٹھٹکا۔ دوپہر کا سنسان وقت تھا اور گرمی نہایت شدت سے پڑ رہی تھی، دیکھتا کیا ہوں کہ الیاس غمگین و محزون پڑا رو رہا ہے دفعتاً ایک شخص آیا اور خط دے کر چلا گیا۔ مجھے سخت تعجب تھا کہ الیاس نے سیکڑوں مرتبہ وہ خط کھولا، پڑھا اور سر آنکھوں پر رکھا۔ آخر بآواز بلند کہنے لگا: “ظالم اب تک اسی ہٹ پر قائم ہے کہ شہزادی کی زندگی میں مجھ سے کسی تعلق کی امید بالکل فضول۔ خیر یہ کیا بڑی بات ہے، لاؤ آج اس قضیہ کا بھی فیصلہ کردوں”۔ یہ کہہ کر الیاس اندر گیا اور ایک خنجر آبدار لے کر باہر نکلا۔ اس کی دھار دیکھی اور کمر میں لگا کر اس کمرہ میں آیا جو میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ آہ پیاری مادہ! آگے بیان کرتے ہوئے کلیجہ کٹتا ہے، وہی شہزادی جو کسی وقت الیاس کے دل پر اچھی طرح قابض اور تمام سلطنت کی مالک تھی، سر پر ہاتھ رکھے بیٹھی تھی اور آنکھ سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے۔ الیاس کی صورت دیکھتے ہی شہزادی گھبرا کر اٹھی۔ گو وہ بالکل ساکت کھڑی تھی مگر سر سے پا تک ایک نا امیدی کی تصویر تھی۔ اس کی بڑی اور رسیلی آنکھیں جو اس وقت گلابی ہو گئی تھیں، بہ حسرت و یاس الیاس کے چہرے پر تھیں اور اس کے تکلیف دہ خیالات کی پریشانی کا اظہار اس کی صورت سے ظاہر تھا۔ نرم اور نازک رخسار گلاب کی پتیوں کی طرح آفات ناگہانی سے مرجھا چکے تھے اور وہ دل جس میں کبھی عشرت و شادمانی کا راج تھا، اس وقت مصائب کی پوٹ بنا ہوا تھا۔

پہلو میں ننھا سا دل رکھنے والی مادہ! مجھے اندیشہ ہے اب واقعات تجھ کو رُلا نہ دیں۔ جس وقت سفاک الیاس نے کمر سے خنجر نکالا، اس کی چمک دیکھ کر شہزادی سہم گئی، اوسان جاتے رہے، تھر تھر کانپنے لگی۔ الیاس آگے بڑھا،شہزادی کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹا اور کہا تیرا جام عمر لبریز ہوچکا۔ یہ خنجر تیرا کام تمام کر دے گا۔ ادھر آ اور مرنے کے واسطے تیار ہو۔

اتنا کہہ کر خنجر اٹھایا۔ چاہتا تھا کہ کام تمام کر دے، شہزادی نے بہ منت یہ الفاظ کہے:

“میں بے گناہ ہوں۔ جس دماغ میں آج سے پندرہ بیس برس پہلے میری محبت کے خیالات بھرے ہوئے تھے آج اس میں قتل کی تجویزیں ہیں۔ بادشاہ کی جن آنکھوں سے آج خون ٹپک رہا ہے، یہ کبھی میری طرف پیار و محبت سے بھی اٹھی ہیں۔ اگر تیری کامیابی صرف میری موت پر منحصر ہے تو میں یہ جان قربان کرتی ہوں، لیکن نافرمانی کا الزام میرے اوپر بہتان ہے۔ الیاس! وہ کام نہ کر کہ میرے دونوں بچے دنیا میں ذلت کی زندگی بسر کریں۔ میں جانتی ہوں کہ تھوڑی دیر میں میرا جسم فرش پر تڑپ رہا ہوگا اور جب تک تیری آنکھیں مجھ کو مردہ نہ دیکھ لیں، دل ٹھنڈا نہیں ہو سکتا۔ میں اپنا خون معاف کرتی ہوں، بائیس برس تیرے ساتھ زندگی بسر کی۔ تیری بدولت دنیا کے لطف اٹھائے۔ ایک ایسے رفیق کو جان نذر کر دینی کوئی بڑی بات نہیں۔ اب میں اجازت دیتی ہوں کہ تو شوق سے اپنی خواہش پوری کر”۔

ابھی یہ پہلا فقرہ ختم بھی نہ ہوا تھا کہ ظالم الیاس نے آبدار خنجر کو حرکت دی اور عین اُس وقت جبکہ مظلوم شہزادی کی آنکھیں اپنے خاوند کے چہرے کو تک رہی تھیں، اس کے کلیجے میں بھونک دیا۔

کیوں مادہ! کیا وہ مذہب اور اخلاق اور قانون جس پر انسان بہت کچھ نازاں ہے اور سمجھتا ہے کہ ابتدائے دنیا سے آج تک ہم نے بہت کچھ ترقی کرلی، یہی تعلیم دیتا ہے؟ کیا وہ شہزادی جس نے عفت و عصمت جیسی چیز قربان کر دی، کیا وہ عورت جس کو الیاس نے زبردستی اپنی محبت کا یقین دلایا، اسی سلوک کی مستحق تھی؟ کس طرح سنگدل الیاس کا ہاتھ ایک بے گناہ، برسوں کی رفیق اور برسوں کی ساتھی عورت پر اٹھا۔

یہ کچھ ایسا درد انگیز سماں تھا کہ میرے پر شل اور ہاتھ پاؤں پٹڑا ہو گئے، طاقت پرواز نہ رہی۔ آفتاب غروب ہو چکا تھا، میں نے وہیں بسیرا کیا اور رات کو جس وقت میں نے یہ دیکھا کہ ایک نئی عورت الیاس کی خواب گاہ میں داخل ہوئی اور الیاس اس کے استقبال کو اٹھا، مجھ میں دیکھنے کی تاب نہ رہی۔ میں اڑا اور راتوں رات اپنے گھر پہنچا۔

میرا دماغ اس وقت بالکل صحیح نہ تھا، پریشان خیالات نے میری قوت زائل کردی تھی۔ ہر چند چاہتا تھا کہ تھوڑی سی نیند لے کر دماغ کو تسکین دوں مگر بے گناہ شہزادی کی آخری گفتگو میرے کانوں میں موجود تھی اور کسی طرح نہ بھولتی تھی۔

بدقت تمام رات بسر کی لیکن کائنات کی اس قابل ناز شے یعنی انسان کے مطالعہ کا مجھ کو اس قدر شوق ہوا کہ میں پھر آبادی میں پہنچا۔ شہر میں ایک پہاڑی تھی جس پر سہ منزلہ اور چو منزلہ مکان بنے ہوئے تھے، ان میں سے ایک بلند مکان دیکھ کر میں ممٹی پر جا بیٹھا۔

قوت مشاہدہ میری مددگار تھی، تمام شہر میری آنکھ کے سامنے تھا اور میری آنکھ افعال انسانی پر بغرض تحقیقات پڑ رہی تھی۔ میرا خیال تھا کہ وہ ما بہ الامتیاز شے جس نے اس مخلوق کو اشرف بنا دیا، حیات انسانی کی رہنما ہوگی مگر مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ ان سیکڑوں اور ہزاروں ذی روح لوگوں میں ایک متنفس بھی ایسا نظر نہ آیا جس پر انسان کا اطلاق جائز ہوسکتا۔

اُن بخارات کی طرح جو شدتِ حرارت و تمازتِ آفتاب سے پہاڑ کی چٹانوں یا تپتے ہوئے کرۂ زمین سے نکل کر ہوا میں اڑتے رہتے ہیں، میری نگاہ ابھی تک کہیں ٹھہری نہ تھی اور مطالعہ انسان کے اشتیاق نے مجھ کو اس قدر بے تاب کر دیا تھا کہ قوتِ باصرہ کی رفتار حد آخر تک پہنچ چکی تھی۔ رنگ برنگ کی اشیا، مختلف ہیئت و صورت کے اجسام سامنے سے گزر رہے تھے؛ مگر چونکہ متجسس نگاہ سرعت کے ساتھ دیکھ رہی تھی، مَیں ان میں سے کسی کو تمیز نہ کر سکا، یہاں تک کہ ایک زرد دوپٹہ بیچ میں آکر حائل ہوا اور میری تمام توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ یہ دوپٹہ انسان کے اُس کمزور فرقے کے سر پر تھا جو عورت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے، لیکن یہ کپڑا بجائے سرخ رنگ اور چمکدار ہونے کے پھٹا ہوا اور میلا کچیلا تھا۔ الیاس کے ظلم اور شہزادی کی منت و زاری نے میرے دل میں اس فرقے کی حمایت پیدا کر دی تھی۔ میں نے سر سے پاؤں تک اس عورت کو دیکھا، گو شہزادی کی طرح اس کے پاس دلفریبی کا کوئی سامان نہ تھا اور باوجود یہ کہ ہوا کے ٹھنڈے ٹھنڈے جھونکے بجائے دل و دماغ کو تر و تازہ کرنے کے، اس چار دیواری سے جس میں یہ موجود تھی ٹکرا ٹکرا کر واپس جا رہے تھے۔ تاہم اس کے چہرے سے خوشی کا مینہ برس رہا تھا اور جہاں تک میرا قیاس حیوانی کام دے سکا، میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ فکر و غم کی گھٹا اس کے قلب سے بالکل نا آشنا ہے۔ افسوس میرے نتیجہ نے مجھ کو مغالطہ دیا، میں نہ سمجھ سکا کہ یہ حالت مستقل نہیں عارضی ہے اور یہ زور کا چھینٹا تھوڑی دیر بعد کھل جائے گا اور یہ دل جو اس وقت باغ باغ ہے، اس پر حوادث کی بجلی چمک چمک کر اور کڑک کڑک کر گرے گی۔

یہ عورت ایک ٹوٹے سے کُھرّے کھٹولے پر صحن میں بیٹھی تھی اور اندر اس کی تین چار ہم جنسیں مختلف کاموں میں مصروف تھیں۔ اس زرد ڈوپٹہ میں مجھے کوئی چیز کلبلاتی ہوئی نظر آئی، وہ کوئی بے جان نہ تھی، جاندار تھی اور طاقتور بھی تھی اور یہ کوشش کر رہی تھی کہ کسی طرح اس پھٹے ہوئے ڈوپٹہ کو ہٹا کر باہر نکلے؛ مگر عورت کی طاقت غالب تھی۔ وہ چاروں طرف سے ڈوپٹہ کو چھپاتی تھی اور چاہتی تھی کہ یہ قوت اور اس کا یہ فعل ان ہم جنسوں کے علم میں نہ آئے جو سامنے ہیں۔ کچھ دیر تک ان دونوں میں کشمکش رہی اور بالآخر چھوٹی طاقت میں بڑی طاقت کی طرف سے تھوڑی سی محبت شامل ہوئی۔ ڈوپٹہ سر کا تو میں نے دیکھا کہ ایک ننھا سا بچہ گود میں پڑا دودھ پی رہا ہے۔ نرم رخساروں پر ہنسی کی جھرّیاں، پیارے پیارے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور ماں کے منہ پر ٹکٹکی تھی۔ بچہ کی یہ کیفیت دیکھ کر چونکہ میں خود صاحب اولاد تھا، کس قدر خوش ہوا ہوں بیان نہیں کر سکتا۔ اس کا ننھا سا دل دنیا کے تفکرات سے بالکل آزاد تھا۔ اس کی تمام سلطنت ماں کی گود تھی جس میں پڑا ہوا حکومت کر رہا تھا۔ جس پیار اور محبت سے ماں کی نگاہیں اس بچہ پر پڑ رہی تھیں، وہ کوئی میرے دل سے پوچھے۔ جھکتی تھی، طرح طرح کے منہ بناکر چمٹتی تھی، مختلف ناموں سے پکارتی تھی، بھینچ بھینچ کر لپٹتی تھی۔ اس کی گود میں ایک ایسی لازوال دولت اور بیش بہا خزانہ تھا جس کی خوشی کا احساس کسی طرح ختم نہ ہوتا تھا۔ مامتا دماغ میں خیال اور خیال میں بلندیاں، دل میں حوصلے اور حوصلوں میں امیدیں پیدا کر رہی تھی۔ اس کی حرکات قریب قریب مجنونانہ تھیں، مگر کچھ ایسی خوشی سے لبریز تھیں کہ اس کا پتہ مجھ کو اُن خوشیوں میں بھی نہ ملا جو الیاس و شہزادی کے پاس شب ماہ میں تھیں۔ فرطِ محبت سے چومتے چومتے خیالات نے امیدوں کو جامۂ کامیابی پہنایا۔ چاہتی تھی کہ کلیجہ سے لگا کر ہولے ہولے تھپڑ مارے۔ دفعۃً ایک ہم جنس سنگ دل کی خفگی اور فقرے نے اس کی امیدوں کو خاک میں ملا دیا:

“کیوں ری انّا کمبخت! تو نے پھر اپنے بچہ کو دودھ دیا!”

خدا معلوم اس فقرے کی تہ میں ایسی کیا چیز چھپی تھی جو بے فکر دل پر تیر کی طرح جا کر لگی اور ہشاش بشاش چہرہ کو جس پر رنج و غم کا نشان تک نہ تھا، بالکل سہما دیا۔ اتنی عمر ہونے آئی، مگر آج تک اتنی جلدی مَیں نے کبھی آسمان کو بھی رنگ بدلتے نہ دیکھا۔ جس کے وہم و گمان میں بھی انقلاب کا اندیشہ نہ تھا، جو خلقت اور صنعت سب کو ہیچ سمجھ رہی تھی، جس کی تمام خوشیاں، جس کے تمام خیالات اس دو ڈھائی سیر کے لوتھڑے میں محدود تھے، جس کے دماغ میں اس بے بہا نعمت نے اپنا سکہ بٹھا رکھا تھا اور جس کے دل میں یہ ننھا سا لال راج کر رہا تھا، دفعتاً سٹ پٹا گئی۔ بچہ کو وہیں پٹخا اور سہمی ہوئی سامنے آ کھڑی ہوئی۔ منہ پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور گھگیا گھگیا کر کہہ رہی تھی: “نہیں تو بیگم! بڑی دیر سے رو رہا تھا، میں نے گود میں اٹھا لیا”۔

ماں کی گود کا فراق اور دودھ کا چھٹنا تھا کہ ننھا سا دل پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ تعجب تو یہ تھا کہ ہرچند چیخا چلایا، مگر واقعات نے ماں کو اتنی اجازت نہ دی کہ اپنی صورت دکھا کر فوری رنج کی تلافی کر دیتی۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ جوں جوں اظہار تکلیف میں جس کا ذریعہ رونے کے سوا بچے کے پاس کچھ اور نہ تھا، زیادتی ہوتی جاتی تھی، ماں کا خون خشک ہوتا جاتا تھا۔ میں دور بیٹھا ہوا بہت کچھ تڑپا مگر بے بس تھا۔ بہتیرا غور کیا مگر قیاس نے مدد نہ دی کہ اس سنگدل عورت کے فعل پر کوئی رائے قائم کرتا۔ ہرچند وجہِ ارتکاب سوچتا تھا مگر کوئی خیال ٹھیک نہ بیٹھا، با وجود اس ناکامی کے کہ دماغ نے کوئی صائب رائے نہ دی، چونکہ افراط تخیلات کا مرض مجھ کو لاحق ہے اس جھگڑے کے الٹ پھیر میں پھنسا رہا۔ ممکن ہے کہ غلط ہو مگر میں جو قیاس لگا سکا اور جو رائے قائم کرنے پر مجبور تھا وہ یہ تھی کہ زرد ڈوپٹہ والی عورت کی کچھ ایسی اغراض اِن ہم جنسوں سے وابستہ تھیں جن کا پورا ہونا ضروریات زندگی میں شامل اور بقائے حیات کا جزوِ لازمی تھا۔

مگر اے مادہ! بشریت اسی کا نام ہے اور ان حرکات کا فاعل انسان کہے جانے کا مستحق ہے؟

بول بول پیاری مادہ، کس دل سےاس شقی القلب عورت نے ماں بیٹوں کے دورِ محبت کو درہم برہم کر دیا۔ وہ ذرا سا دل جو آزادی سے پڑا ہوا کلکاریاں مار رہا تھا، اس سنگ دل کی وجہ سے چیخیں مار مار کر رونے لگا اور اس کو پروا بھی نہ ہوئی۔ محض اپنے بچے کی محبت باعتبار تموّل بر تر ہونے کا زعم یا اسی کے قریب قریب کچھ اور ہونے کی رعونت۔ کیا سب جائز تھے؟ اس لیے کہ اپنی ہی جیسی عورت، اپنی ہی جیسی انسان کی مامتا صرف اس وجہ سے کہ اس کی ضرورتیں اٹکی ہوئی ہیں، اپنی مامتا پر قربان کردے اور ایسا نا جائز فائدہ اٹھائے کہ مجھ جیسا جانور تک لعن طعن کریں؟ بول بول پیاری مادہ کچھ تو بول۔ ننھے ننھے کلیجوں پر تیر لگانے والی مخلوق، مجروح دلوں پر برچھیاں چلانے والی مخلوق اور اشرف؟ توبہ توبہ!! اے آسمان پر بادشاہت اور زمین پر حکومت کرنے والے! الامان الحفیظ۔ بچائیو اس مخلوق سے جو اتنی ارذل اور پناہ میں رکھیو اس فرقے سے جو اس قدر خود غرض ہو۔

مادہ پیاری مادہ! باتوں ہی باتوں میں دن کہیں کا کہیں پہنچا اور سورج سر پر آ گیا۔ میں نہ کہتا تھا کہ ایسی منحوس مخلوق کا صبح ہی صبح نام لیا، خدا خیر کرے۔ خواہش یہ ہے کہ آئندہ کسی ایسی شے کا وجود میرے ذہن میں نہ ہو۔ آ اور دامن کوہ میں چل۔ جو کچھ کہا کچھ نہیں کہا، ابھی بہت کچھ کہنا ہے۔

میں اس تماشے میں ایسا محو اور اس واقعہ سے اتنا متاثر ہوا کہ بھوک پیاس غارت ہوئی۔ ہرچند جی چاہا کہ نیچے اتروں اور اپنے پروں کی ٹھنڈی ہوا سے معصوم دماغ کو تر و تازہ کروں مگر اندیشہ اور اندیشہ کیا یقین تھا کہ اگر بھولے سے بھی ان حدود میں داخل ہو جاؤں گا جہاں حضرت انسان کے قدم پہنچتے ہیں تو آزادی کا خاتمہ ہوگااور پر قینچ ہو کر کسی کونے میں پھینک دیا جاؤں گا۔ اڑا اور جدھر منہ اٹھا اُدھر کا رخ کیا۔ جہاں انسان کی طرف سے اس قدر نفرت آمیز خیالات میرے دماغ میں جڑ پکڑے جاتے تھے، وہیں تحقیقات مزید کی خواہش اور یقین کی ضرورت بھی اس درجہ محسوس ہو رہی تھی کہ میں آبادی میں چکر لگاتا رہا۔ گرمی نہایت شدت سے پڑ رہی تھی اور چونکہ حرارتِ آفتاب اس وقت پورے زور پر تھی۔ نازک مزاج انسان کو اتنی برداشت کہاں؟ کوئی تہ خانوں میں گھسا، کوئی خس خانوں میں۔ ہاں ایک جگہ تین چار آدمی کھڑے دکھائی دیے۔ ان کو دیکھ کر میں نے بھی طاقت پرواز کو کمزور کیا، دیکھتا کیا ہوں کہ ایک موٹا تازہ آدمی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ادھر ادھر ٹہل رہا ہے۔ اتنا ہی موٹا مگر عمر میں کچھ چھوٹا ایک شخص جس کی صورت بڑے موٹے سے بہت ہی ملتی جلتی تھی، ایک طرف چپکا کھڑا تھا۔ دو تین آدمی اور بھی تھے مگر مجھے دیکھ کر تو کیا، کسی ضرورت ہی سے سمجھنا چاہیے باہر چلے گئے۔

گو پچھلے واقعہ نے اس چیز کو جو انسانی و شیطانی حرکات میں ما بہ الامتیاز ہے، دماغ سے قریب قریب غارت کردیا تھا۔ مگر پھر بھی میں ایسی اعلیٰ و اشرف مخلوق سے بدظن نہ ہوا اور میں نے فیصلہ کیا کہ انسانی تاریخ کے بدنما دھبے شاید مذہب کے رگڑوں کا مقابلہ نہ کرسکیں اور جو طبیعتیں اصول مذہب جیسی مؤثر شے سے متاثر ہو چکی ہیں، ان سے ایسی کمینہ حرکات کا ظہور نہ ہوگا۔ مگر جانور اور مجھ جیسے آزاد کے واسطے یہ تو آسان نہ تھا کہ میں محض انسان کی صورت دیکھ کر یہ پتہ لگا لوں کہ یہ مذہب کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ تاہم واقعات پر نظر ڈالنے سے پہلے میں نے جیبوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے لحیم شحیم کو اسی غرض سے دیکھا۔ اس کا سر منڈا ہوا تھا، بگلے کا پر سفید ڈاڑھی، پیشانی پر نور، گٹے، ٹخنوں سے اونچا پائجامہ ۔ مختصر یہ کہ کچھ ایسا تقدس ٹپک رہا تھا کہ میرے دل نے بلا تامل اس شخص کے انسان ہونے کی شہادت دی۔ میں منتظر تھا کہ اس کے قول و فعل سے کس طرح واقفیت حاصل کروں، دفعتاً اس بڑے موٹے نے چھوٹے موٹے سے کہا:

“یہ صرف فتنہ پروازوں کی شرارت ہے جو تم کو میری طرف سے بھڑکا رہے ہیں۔ میں اگر تمھارا دشمن ہوں گا تو دوست کس کا ہوں گا۔ یہ دولت اور ریاست سب مل جانے والی چیزیں ہیں مگر تم جیسا برابر کا بھائی، نہ ماں باپ زندہ ہو کر آئیں گے، نہ نصیب ہوگا۔ صدقہ کردوں تم پر سے وہ جائداد جو تمھارے دل میں میری طرف سے گرہ ڈالے۔ بھائی سلیم! تم نے کس طرح یقین کرلیا کہ میں حکام کو تمہاری بغاوت کا یقین دلا رہا ہوں اور اس کمبخت موضع عزیز آباد کے واسطے! لاحول ولاقوة! اگر خدا کوئی چیز ہے اور مرنے کے بعد اس کے حضور میں افعال دنیوی کا جواب دینا ہے تو میں اس کو شاہد کرتا ہوں کہ اگر تم سے دغا کروں تو خدا سے۔ تم بلا تامل اس دستاویز پر دستخط کردو۔ والله باللہ ثم باللہ اس کو میری بدنیتی پر محمول نہ کرو۔ تمھاری ریاست تم کو مبارک ہو۔ میری یہ کوشش دوراندیشی پر مبنی ہے کہ اگر خدانخواستہ ایسی ویسی ہو تو یہ آبائی نشانیاں جہاں باپ دادا کی ہڈیاں گڑی ہوئی ہیں نیست نابود نہ ہو جائیں”۔

باپ دادا کا نام لیتے ہوئے اس شخص کی آنکھ میں آنسو بھر آئے اور کچھ ایسے درد سے تقریر کی کہ چھوٹے موٹے نے فوراً ہی دستخط کردیے۔ نہ معلوم اس کاغذ میں کیا خدائی کی دولت تھی کہ دستخط ہوتے ہی بڑا موٹا باغ باغ ہو گیا اور کاغذ ہاتھ میں لے یہ جا وہ جا۔ ابھی اس شخص کو گئے مشکل سے ایک گھنٹہ ہوا ہوگا کہ چند طاقتور انسان رنگ برنگ کی وردیاں پہنے درّانہ گھس آئے اور اس چھوٹے موٹے کو زنجیروں میں جکڑ ایک طرف لے چلے۔ اس شخص کی گریہ و زاری اور اظہار بے گناہی پر کلیجہ کٹتا تھا۔ زمین پر یہ چھوٹی سی جماعت اور ہوا پر میں اکیلا۔ مختصر یہ کہ ہم سب ایک ایسی جگہ پہنچے جو عدالت کے نام سے تعبیر کی جاتی تھی۔ سب سے پہلا شخص جس نے اس مظلوم کے باغی ہونے کی شہادت دی، وہی بڑا موٹا تھا۔ پس پیاری مادہ جانے دے، میں نے تیرے ننھے سے دل کو بہت تکلیف پہنچائی۔ ایسا نہ ہو اس قسم کے واقعات تیری صحت پر برا اثر کریں۔ حقیقی بھائی سے زیادہ دوست کون ہو سکتا تھا۔ اس شخص کو جلا وطنی کا حکم ہوا۔ جس وقت اس کو کشاں کشاں لے چلے ہیں، وہ نہایت حسرتناک وقت تھا۔ قیدی نے بڑے بھائی کی طرف دیکھا اور کہا: “بھائی جان! موضع عزیزآباد میرے پاس رہا نہ تمھارے پاس رہے گا۔ چار دن کی زندگی کے واسطے تم نے مجھ سے میرے پیارے چھڑوائے۔ میں تو چلا لیکن اب تم اس جگہ چلنے کے واسطے تیار رہو جہاں میرا تمھارا انصاف ہوگا اور جہاں میری شکایت کے بغیر اس کا فیصلہ ہو جائے گا”۔

بتا پیاری بتا، کچھ تو بتا۔ کیا اب بھی تو اس مخلوق کے ہمسایہ میں رہنا پسند کرتی ہے؟ وہ دن اور آج کا دن، میں نے تو عہد کر لیا کہ آبادی کی طرف رخ نہ کروں گا۔ لیکن کل شام کو میں نے یہاں بھی حضرت انسان کی صورت دیکھی۔ بس اڑ اور چل وطن کو خیرباد کہہ اور عزیز و اقارب کو خداحافظ۔


تمام شد