سارا عالم گوش بر آواز ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سارا عالم گوش بر آواز ہے
by مجاز لکھنوی

سارا عالم گوش بر آواز ہے
آج کن ہاتھوں میں دل کا ساز ہے

تو جہاں ہے زمزمہ پرداز ہے
دل جہاں ہے گوش بر آواز ہے

ہاں ذرا جرأت دکھا اے جذب دل
حسن کو پردے پہ اپنے ناز ہے

ہم نشیں دل کی حقیقت کیا کہوں
سوز میں ڈوبا ہوا اک ساز ہے

آپ کی مخمور آنکھوں کی قسم
میری مے خواری ابھی تک راز ہے

ہنس دیے وہ میرے رونے پر مگر
ان کے ہنس دینے میں بھی اک راز ہے

چھپ گئے وہ ساز ہستی چھیڑ کر
اب تو بس آواز ہی آواز ہے

حسن کو ناحق پشیماں کر دیا
اے جنوں یہ بھی کوئی انداز ہے

ساری محفل جس پہ جھوم اٹھی مجازؔ
وہ تو آواز شکست ساز ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse