سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے
by مرزا غالب

سادگی پر اس کی مر جانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کف قاتل میں ہے

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے باایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

بس ہجوم ناامیدی خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذت ہماری سعی بے حاصل میں ہے

رنج رہ کیوں کھینچے واماندگی کو عشق ہے
اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے

جلوہ زار آتش دوزخ ہمارا دل سہی
فتنۂ شور قیامت کس کے آب و گل میں ہے

ہے دل شوریدۂ غالبؔ طلسم پیچ و تاب
رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse