ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا
ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا
لگتا تھا بے کراں مجھے صحرا میں آسماں
پہنچا جو بستیوں میں تو خانوں میں بٹ گیا
یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر
یا اتنا نرم دل کہ رگ گل سے کٹ گیا
بانہوں میں آ سکا نہ حویلی کا اک ستون
پتلی میں میری آنکھ کی صحرا سمٹ گیا
اب کون جائے کوئے ملامت کو چھوڑ کر
قدموں سے آ کے اپنا ہی سایہ لپٹ گیا
گنبد کا کیا قصور اسے کیوں کہو برا
آیا جدھر سے تیر ادھر ہی پلٹ گیا
رکھتا ہے خود سے کون حریفانہ کشمکش
میں تھا کہ رات اپنے مقابل ہی ڈٹ گیا
جس کی اماں میں ہوں وہی اکتا گیا نہ ہو
بوندیں یہ کیوں برستی ہیں بادل تو چھٹ گیا
وہ لمحۂ شعور جسے جانکنی کہیں
چہرے سے زندگی کے نقابیں الٹ گیا
ٹھوکر سے میرا پاؤں تو زخمی ہوا ضرور
رستے میں جو کھڑا تھا وہ کہسار ہٹ گیا
اک حشر سا بپا تھا مرے دل میں اے شکیبؔ
کھولیں جو کھڑکیاں تو ذرا شور گھٹ گیا
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |