ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا
by شکیب جلالی

ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا

لگتا تھا بے کراں مجھے صحرا میں آسماں
پہنچا جو بستیوں میں تو خانوں میں بٹ گیا

یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر
یا اتنا نرم دل کہ رگ گل سے کٹ گیا

بانہوں میں آ سکا نہ حویلی کا اک ستون
پتلی میں میری آنکھ کی صحرا سمٹ گیا

اب کون جائے کوئے ملامت کو چھوڑ کر
قدموں سے آ کے اپنا ہی سایہ لپٹ گیا

گنبد کا کیا قصور اسے کیوں کہو برا
آیا جدھر سے تیر ادھر ہی پلٹ گیا

رکھتا ہے خود سے کون حریفانہ کشمکش
میں تھا کہ رات اپنے مقابل ہی ڈٹ گیا

جس کی اماں میں ہوں وہی اکتا گیا نہ ہو
بوندیں یہ کیوں برستی ہیں بادل تو چھٹ گیا

وہ لمحۂ شعور جسے جانکنی کہیں
چہرے سے زندگی کے نقابیں الٹ گیا

ٹھوکر سے میرا پاؤں تو زخمی ہوا ضرور
رستے میں جو کھڑا تھا وہ کہسار ہٹ گیا

اک حشر سا بپا تھا مرے دل میں اے شکیبؔ
کھولیں جو کھڑکیاں تو ذرا شور گھٹ گیا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse