ساتھ رہتے اتنی مدت ہو گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ساتھ رہتے اتنی مدت ہو گئی
by حفیظ جونپوری

ساتھ رہتے اتنی مدت ہو گئی
درد کو دل سے محبت ہو گئی

کیا جوانی جلد رخصت ہو گئی
اک چھلاوا تھی کہ چمپت ہو گئی

دل کی گاہک اچھی صورت ہو گئی
آنکھ ملتے ہی محبت ہو گئی

فاتحہ پڑھنے وہ آئے آج کیا
ٹھوکروں کی نذر تربت ہو گئی

لاکھ بیماری ہے اک پرہیز مے
جان جوکھوں ترک عادت ہو گئی

تفرقہ ڈالا فلک نے بارہا
دو دلوں میں جب محبت ہو گئی

وہ گلہ سن کر ہوئے یوں منفعل
عائد اپنے سر شکایت ہو گئی

دوستی کیا اس تلون طبع کی
چار دن صاحب سلامت ہو گئی

واہ رے عالم کمال عشق کا
میری ان کی ایک صورت ہو گئی

ان کے جاتے ہی ہوئی کایا پلٹ
خم مسرت یاس حسرت ہو گئی

پی کے یوں تم کب بہکتے تھے حفیظؔ
رات کیا بے لطف صحبت ہو گئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse