ساتھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ساتھی
by شکیب جلالی

میں اس کو پانا بھی چاہوں
تو یہ میرے لیے نا ممکن ہے
وہ آگے آگے تیز خرام
میں اس کے پیچھے پیچھے
افتاں خیزاں
آوازیں دیتا
شور مچاتا
کب سے رواں ہوں
برگ خزاں ہوں
جب میں اکتا کر رک جاؤں گا
وہ بھی پل بھر کو ٹھہر کر
مجھ سے آنکھیں چار کرے گا
پھر اپنی چاہت کا اقرار کرے گا
پھر میں
منہ توڑ کے
تیزی سے گھر کی جانب لوٹوں گا
اپنے نقش قدم روندوں گا
اب وہ دل تھام کے
میرے پیچھے لپکتا آئے گا
ندی نالے
پتھر پربت پھاند آ جائے گا
میں آگے آگے
وہ پیچھے پیچھے
دونوں کی رفتار ہے اک جیسی
پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے
وہ مجھ کو یا میں اس کو پا لوں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse