سائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سائے
by محمد دین تاثیر

ایسی راتیں بھی کئی گزری ہیں
جب تری یاد نہیں آتی ہے
درد سینے میں مچلتا ہے مگر
لب پہ فریاد نہیں آتی ہے
ہر گنا سامنے آ جاتا ہے
جیسے تاریک چٹانوں کی قطار
نہ کوئی حیلۂ تیشہ کاری
نہ مداوائے فرار
ایسی راتیں بھی ہیں گزری مجھ پر
جب تری راہ گزر میں سائے
ہر جگہ چار طرف تھے چھائے
تو نہ تھی تیری طرح کے سائے
سائے ہی سائے تھے لرزاں لرزاں
کبھی آئے کبھی بھاگے کبھی بھاگے کبھی آئے
سائے ہی سائے تھے تری راہ گزر کے سائے
ایسی راتیں بھی ہیں گزری مجھ پر
جب تری یاد نہیں آتی ہے
لب پہ فریاد نہیں آتی ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse