زیست ہونی تعجبات ہے اب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زیست ہونی تعجبات ہے اب
by میر اثر

زیست ہونی تعجبات ہے اب
مر ہی جانا بس ایک بات ہے اب

دور میں تیرے ہے وہ کچھ اندھیر
نہیں معلوم دن ہے رات ہے اب

دل ہے زندہ نہ جی ہی جیتا ہے
زندگی بد تر از ممات ہے اب

اتنے بے دید بے شنید ہوئے
نہ توجہ نہ التفات ہے اب

ہجر کیسا وصال ہو بالفرض
کچھ ہی صورت ہو مشکلات ہے اب

جی ہی لینا بہ لطف ہے منظور
اس قدر جو تفضلات ہے اب

جیتے جی تو رہا وصال محال
مر چکے پر توقعات ہے اب

کچھ نہ پوچھو اثرؔ کی بے چینی
نہ سکونت ہے نے ثبات ہے اب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse