زیر زمیں ہوں تشنۂ دیدار یار کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زیر زمیں ہوں تشنۂ دیدار یار کا
by مرزارضا برق

زیر زمیں ہوں تشنۂ دیدار یار کا
عالم وہی ہے آج تلک انتظار کا

گزرا شراب پینے سے لے کون درد سر
ساقی دماغ کس کو ہے رنج خمار کا

محشر کے روز بھی نہ کھلے گی ہماری آنکھ
صدمہ اٹھا چکے ہیں شب انتظار کا

عبرت کی جا ہے عالم دنیا نہ کر غرور
سر کاسۂ گدا ہے کسی تاجدار کا

بعد فنا بھی ہے مرض عشق کا اثر
دیکھو کہ رنگ زرد ہے میرے غبار کا

الفت نہ کچھ پری سے نہ کچھ حور سے ہے عشق
مشتاق برقؔ روز ازل سے ہے یار کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse