زیر زمیں رہوں کہ تہہ آسماں رہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زیر زمیں رہوں کہ تہہ آسماں رہوں
by مضطر خیرآبادی

زیر زمیں رہوں کہ تہہ آسماں رہوں
اے جستجوئے یار بتا میں کہاں رہوں

مصروف شکر نعمت پیر مغاں رہوں
اللہ مجھ کو یوں ہی پلائے جہاں رہوں

گھل کر بھی جانب در پیر غاں رہوں
موج شراب ناب بنوں اور رواں رہوں

یارب حریق شعلۂ عشق بتاں رہوں
دوزخ کی آگ لے کے مقیم جناں رہوں

ظالم یہ بزم حسن کا اچھا رواج ہے
تو شمع ہو کے بھی نہ جلے میں تپاں رہوں

اے چشم یار موت کا پہلو بچا کے تو
ایسی نگاہ ڈال کہ میں نیم جاں رہوں

آب حیات پی کے خضر کیا یہاں رہے
میں ٹھان لوں تو کچھ نہ پیوں اور یہاں رہوں

بن جائیں میری طرز فنا کی کہانیاں
ایسا مٹا کہ صاحب نام و نشاں رہوں

ساقی وہ خاص طور کی تعلیم دے مجھے
اس میکدے میں جاؤں تو پیر مغاں رہوں

مضطرؔ وجود ذات نے گھر تک بھی لے لیا
جب خود وہ ہر جگہ ہے تو اب میں کہاں رہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse