زور ہے گرمئ بازار ترے کوچے میں
Appearance
زور ہے گرمئ بازار ترے کوچے میں
جمع ہیں تیرے خریدار ترے کوچے میں
دیکھ کر تجھ کو قدم اٹھ نہیں سکتا اپنا
بن گئے صورت دیوار ترے کوچے میں
پاؤں پھیلائے زمیں پر میں پڑا رہتا ہوں
صورت سایۂ دیوار ترے کوچے میں
گو تو ملتا نہیں پر دل کے تقاضے سے ہم
روز ہو آتے ہیں سو بار ترے کوچے میں
ایک ہم ہیں کہ قدم رکھ نہیں سکتے ورنہ
اینڈتے پھرتے ہیں اغیار ترے کوچے میں
پاسبانوں کی طرح راتوں کو بے تابی سے
نالے کرتے ہیں ہم اے یار ترے کوچے میں
آرزو ہے جو مروں میں تو یہیں دفن بھی ہوں
ہے جگہ تھوڑی سی درکار ترے کوچے میں
گر یہی ہیں ترے ابرو کے اشارے قاتل
آج کل چلتی ہے تلوار ترے کوچے میں
حال دل کہنے کا ناسخؔ جو نہیں پاتا بار
پھینک جاتا ہے وہ اشعار ترے کوچے میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |