زور پر آہ تھی اور نالۂ شب گیر بھی تھا
Appearance
زور پر آہ تھی اور نالۂ شب گیر بھی تھا
مانتا ہم کو کبھی یہ فلک پیر بھی تھا
حور کا دھیان رہا وقت شہادت سب کو
محو صورت پہ تری میں دم تکبیر بھی تھا
در بدر مجھ کو کیا در سے اٹھا کر اپنے
تیرا عاشق تو میں تھا شہر میں تشہیر بھی تھا
بندگی قہر ہے الزام اٹھاتے ہی بنی
حشر میں پیش اگرچہ خط تقدیر بھی تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |