زندے وہی ہیں جو کہ ہیں تم پر مرے ہوے
Appearance
زندے وہی ہیں جو کہ ہیں تم پر مرے ہوے
باقی جو ہیں سو قبر میں مردے بھرے ہوئے
مست الست قلزم ہستی میں آئے ہیں
مثل حباب اپنا پیالہ بھرے ہوئے
اللہ رے صفائے تن نازنین یار
موتی ہیں کوٹ کوٹ کے گویا بھرے ہوئے
دو دن سے پاؤں جو نہیں دبوائے یار نے
بیٹھے ہیں ہاتھ ہاتھ کے اوپر دھرے ہوئے
ان ابروؤں کے حلقہ میں وہ انکھڑیاں نہیں
دو طاق پر ہیں دو گل نرگس دھرے ہوئے
بعد فنا بھی آئے گی مجھ مست کو نہ نیند
بے خشت خم لحد میں سرہانے دھرے ہوئے
نکلیں جو اشک بے اثر آنکھوں سے کیا عجب
پیدا ہوئے ہیں طفل ہزاروں مرے ہوئے
لکھے گئے بیاضوں میں اشعار انتخاب
رائج رہے وہی کہ جو سکے کھرے ہوئے
الٹا صفوں کو تیغ نے ابروئے یار کی
تیر مژہ سے درہم و برہم پرے ہوئے
آتشؔ خدا نے چاہا تو دریائے عشق میں
کودے جو اب کی ہم تو ورے سے پرے ہوئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |