زندے وہی ہیں جو کہ ہیں تم پر مرے ہوے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زندے وہی ہیں جو کہ ہیں تم پر مرے ہوے
by حیدر علی آتش

زندے وہی ہیں جو کہ ہیں تم پر مرے ہوے
باقی جو ہیں سو قبر میں مردے بھرے ہوئے

مست الست قلزم ہستی میں آئے ہیں
مثل حباب اپنا پیالہ بھرے ہوئے

اللہ رے صفائے تن نازنین یار
موتی ہیں کوٹ کوٹ کے گویا بھرے ہوئے

دو دن سے پاؤں جو نہیں دبوائے یار نے
بیٹھے ہیں ہاتھ ہاتھ کے اوپر دھرے ہوئے

ان ابروؤں کے حلقہ میں وہ انکھڑیاں نہیں
دو طاق پر ہیں دو گل نرگس دھرے ہوئے

بعد فنا بھی آئے گی مجھ مست کو نہ نیند
بے خشت خم لحد میں سرہانے دھرے ہوئے

نکلیں جو اشک بے اثر آنکھوں سے کیا عجب
پیدا ہوئے ہیں طفل ہزاروں مرے ہوئے

لکھے گئے بیاضوں میں اشعار انتخاب
رائج رہے وہی کہ جو سکے کھرے ہوئے

الٹا صفوں کو تیغ نے ابروئے یار کی
تیر مژہ سے درہم و برہم پرے ہوئے

آتشؔ خدا نے چاہا تو دریائے عشق میں
کودے جو اب کی ہم تو ورے سے پرے ہوئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse