زندگی کا کس لیے ماتم رہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زندگی کا کس لیے ماتم رہے
by برجموہن دتاتریہ کیفی

زندگی کا کس لیے ماتم رہے
ملک بستا ہے مٹے یا ہم رہے

دل رہے پیری میں بھی تیرا جواں
آخری دم تک یہی دم خم رہے

چاہیئے انسان کا دل ہو غنی
پاس مال و زر بہت یا کم رہے

کیا اسی جنت کی یہ تحریص ہے
جس میں کچھ دن حضرت آدم رہے

وصل سے مطلب نہ رکھ تو عشق کا
دم بھرے جا دم میں جب تک دم رہے

لاگ اک دن بن کے رہتی ہے لگاؤ
ہاں لگاوٹ کچھ نہ کچھ باہم رہے

عشق نے جس دل پہ قبضہ کر لیا
پھر کہاں اس میں نشاط و غم رہے

شرق سے جب نور چمکا تو کہاں
برگ گل پر قطرۂ شبنم رہے

حسن کی دنیا کا ہے دائم شباب
حشر تک اس کا یہی عالم رہے

ہے سرور حسن کیفیؔ لا یزال
در خور ظرف اس میں بیش و کم رہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse