زندگی نام ہے جس چیز کا کیا ہوتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زندگی نام ہے جس چیز کا کیا ہوتی ہے
by شیر سنگھ ناز دہلوی

زندگی نام ہے جس چیز کا کیا ہوتی ہے
چلتی پھرتی یہ زمانے کی ہوا ہوتی ہے

سیر دنیا کی نہ کچھ یاد خدا ہوتی ہے
عمر انہیں جھگڑوں میں تاراج فنا ہوتی ہے

روح جب قالب خاکی سے جدا ہوتی ہے
کس کو معلوم کہاں جاتی ہے کیا ہوتی ہے

فکر دنیا سے سوا ہو جسے عقبیٰ کا خیال
وہ طبیعت ہی زمانے سے جدا ہوتی ہے

دل پر غم ابھی بن جائے دوائے تسکین
وہ نظر ڈال جو مانوس وفا ہوتی ہے

صادق القول کی پہچان یہی ہے اے نازؔ
دل میں ڈر ہوتا ہے آنکھوں میں حیا ہوتی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse