زندگی مرگ کی مہلت ہی سہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زندگی مرگ کی مہلت ہی سہی
by قلق میرٹھی

زندگی مرگ کی مہلت ہی سہی
بہر واماندہ اقامت ہی سہی

دوستی وجہ عداوت ہی سہی
دشمنی بہر رفاقت ہی سہی

طول دیتے ہو عداوت کو کیوں
مختصر قصۂ الفت ہی سہی

رکھ کسی وضع سے احسان کی خو
مجھ کو آزار سے راحت ہی سہی

آپ کا بھی نہیں چھٹتا دامن
میرے در پہ مری شامت ہی سہی

عاقبت حشر کو آنا اک دن
روٹھ جانا تری عادت ہی سہی

کچھ بھی اے بخت میسر ہے تجھے
یا تجسس سے فراغت ہی سہی

کوچۂ غیر میں چل کر رہیے
گر نہیں عیش تو حسرت ہی سہی

یہی تقریب ستم ہو اے کاش
ہر طرح غیر سے نفرت ہی سہی

اب تو اٹھ آئے لحد سے بے تاب
نہ سہی چال قیامت ہی سہی

یادگاری کی کوئی بات تو ہو
موت اپنی تری رخصت ہی سہی

عدل و انصاف قیامت معلوم
آہ و فریاد کی فرصت ہی سہی

اے قلقؔ شکر ستم بے جا کیوں
آہ و فریاد کی فرصت ہی سہی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse