زندگی ایک اذیت ہے مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زندگی ایک اذیت ہے مجھے
by میراجی

زندگی ایک اذیت ہے مجھے
تجھ سے ملنے کی ضرورت ہے مجھے

دل میں ہر لحظہ ہے صرف ایک خیال
تجھ سے کس درجہ محبت ہے مجھے

تری صورت تری زلفیں ملبوس
بس انہی چیزوں سے رغبت ہے مجھے

مجھ پہ اب فاش ہوا راز حیات
زیست اب سے تری چاہت ہے مجھے

تیز ہے وقت کی رفتار بہت
اور بہت تھوڑی سی فرصت ہے مجھے

سانس جو بیت گیا بیت گیا
بس اسی بات کی کلفت ہے مجھے

آہ میری ہے تبسم تیرا
اس لیے درد بھی راحت ہے مجھے

اب نہیں دل میں مرے شوق وصال
اب ہر اک شے سے فراغت ہے مجھے

اب نہ وہ جوش تمنا باقی
اب نہ وہ عشق کی وحشت ہے مجھے

اب یوں ہی عمر گزر جائے گی
اب یہی بات غنیمت ہے مجھے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse