زمیں روئی ہمارے حال پر اور آسماں رویا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زمیں روئی ہمارے حال پر اور آسماں رویا
by وحشت کلکتوی

زمیں روئی ہمارے حال پر اور آسماں رویا
ہماری بیکسی کو دیکھ کر سارا جہاں رویا

میں جب نکلا چمن سے شبنم آب گلستاں رویا
اداسی چھا گئی ایسی خود آخر باغباں رویا

نہ آیا رحم کچھ بھی آہ دل میں اس ستم گر کے
ہماری جبہہ سائی کے اثر سے آستاں رویا

ہر اک عضو بدن ماتم کناں ہے دل کے جانے سے
ہوا یوسف جو گم تو کارواں کا کارواں رویا

خلل افگن تری بزم طرب میں کون ہو ظالم
ہوا کیا گر ترے کوچے میں کوئی تفتۂ جاں رویا

مرے آنسو تری بیداد کا پردہ نہ کھولیں گے
عبث یہ بدگمانی ہے میں کب رویا کہاں رویا

عدو خوش ہوں تو ہوں اے بے مروت تیری محفل میں
مرا تو حال یہ ہے جب کبھی آیا یہاں رویا

جفائے دشمناں اور بے وفائی ہائے یاراں سے
بہت غم دیدہ ہو کر وحشتؔ آزردہ جاں رویا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse