زمین مے کدۂ عرش بریں معلوم ہوتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زمین مے کدۂ عرش بریں معلوم ہوتی ہے
by ریاض خیرآبادی

زمین مے کدۂ عرش بریں معلوم ہوتی ہے
یہ خشت خم فرشتے کی جبیں معلوم ہوتی ہے

پری اڑنے میں زلف عنبریں معلوم ہوتی ہے
یہ کالی شکل بھی کتنی حسیں معلوم ہوتی ہے

مری حسرت تبسم آفریں معلوم ہوتی ہے
چھپی تیرے تبسم میں نہیں معلوم ہوتی ہے

شفق کہہ لے کوئی چاہے شفق گوں آسماں کہہ لے
ہمیں تو کوئے قاتل کی زمیں معلوم ہوتی ہے

چلی ہے تیغ تو کس ناز سے تھم تھم کے رک رک کر
یہ کچھ ان سے زیادہ نازنیں معلوم ہوتی ہے

ارے ساقی ذرا میری شراب تلخ تو لانا
مئے کوثر تو بالکل انگبیں معلوم ہوتی ہے

چھپی ہے وہ نگاہ شوخ بھی مژگاں کے سائے میں
چھری بھی آج زیر آستیں معلوم ہوتی ہے

ابھارو تو ذرا شاید مرا ڈوبا ہوا دل ہو
کوئی شے بحر غم میں تہہ نشیں معلوم ہوتی ہے

نہیں اب درد دل لیکن ابھی تک ہے اثر کچھ کچھ
چمک رہ رہ کے پہلو میں کہیں معلوم ہوتی ہے

اثر ڈالا ہے حسرت نے نگاہ شوق پر کتنا
کہ وہ اب بھی نگاہ واپسیں معلوم ہوتی ہے

یہ اے صیاد رہ رہ کر چمکتی ہے کہاں بجلی
جہاں میرا نشیمن تھا وہیں معلوم ہوتی ہے

لپک اس کی چمک اس کی وہی دم خم وہی عالم
یہ بجلی کوئی آہ آتشیں معلوم ہوتی ہے

ریاضؔ ایسی مرے دل سے لگی ہے جام کوثر کی
مے انگور اب اچھی نہیں معلوم ہوتی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse