زمزمہ کس کی زباں پر بہ دل شاد آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زمزمہ کس کی زباں پر بہ دل شاد آیا
by امانت لکھنوی

زمزمہ کس کی زباں پر بہ دل شاد آیا
منہ نہ کھولا تھا کہ پر باندھنے صیاد آیا

قد جو بوٹا سا ترا سرو رواں یاد آیا
غش پہ غش مجھ کو چمن میں تہ شمشاد آیا

لے اڑی دل کو سوئے دشت ہوائے وحشت
پھر یہ جھونکا مجھے کر دینے کو برباد آیا

کس قدر دل سے فراموش کیا عاشق کو
نہ کبھی آپ کو بھولے سے بھی میں یاد آیا

دل ہوا سرو گلستاں کے نظارے سے نہال
شجر قامت دل دار مجھے یاد آیا

ہو گئی قطع اسیری میں امید پرواز
اڑ گئے ہوش جو پر کاٹنے صیاد آیا

ہو گیا حسرت پرواز میں دل سو ٹکڑے
ہم نے دیکھا جو قفس کو تو فلک یاد آیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse