زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
Appearance
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
یہی ہے رنگ دنیا کا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
جوانی کی ہے آمد حسن کی ہر دم ترقی ہے
تری صورت ترا نقشہ ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
نہ آئے گا قرار اس کو نہ ممکن ہے قیام اس کو
ہمارا دل ترا وعدہ ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
کبھی تو جستجو اس کی کبھی گم آپ ہو جانا
مری وحشت مرا سودا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
غرور حسن ہے سر میں خیال دلبری دل میں
دماغ ان کا مزاج ان کا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
ذرا میں مہرباں ہونا ذرا میں جان کے دشمن
عجب دل ہے حسینوں کا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
تمہیں کیوں اس قدر غم ہے حفیظؔ اپنی تباہی کا
یہی دنیا کا ہے نقشہ ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |