زمانہ ہے کہ گزرا جا رہا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زمانہ ہے کہ گزرا جا رہا ہے
by جلیل مانکپوری

زمانہ ہے کہ گزرا جا رہا ہے
یہ دریا ہے کہ بہتا جا رہا ہے

وہ اٹھے درد اٹھا حشر اٹھا
مگر دل ہے کہ بیٹھا جا رہا ہے

لگی تھی ان کے قدموں سے قیامت
میں سمجھا ساتھ سایا جا رہا ہے

زمانے پر ہنسے کوئی کہ روئے
جو ہونا ہے وہ ہوتا جا رہا ہے

مرے داغ جگر کو پھول کہہ کر
مجھے کانٹوں میں کھینچا جا رہا ہے

بہار آئی کہ دن ہولی کے آئے
گلوں میں رنگ کھیلا جا رہا ہے

رواں ہے عمر اور انسان غافل
مسافر ہے کہ سوتا جا رہا ہے

سر میت ہے یہ عبرت کا نوحہ
محبت کا جنازہ جا رہا ہے

جلیلؔ اب دل کو اپنا دل نہ سمجھو
کوئی کر کے اشارا جا رہا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse