زلف کا کیا اس کی چٹکا لگ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زلف کا کیا اس کی چٹکا لگ گیا
by شاہ نصیر

زلف کا کیا اس کی چٹکا لگ گیا
زور دل کے ہاتھ لٹکا لگ گیا

تار مژگاں پر چلا جاتا ہے اشک
کام پر لڑکا یہ نٹ کا لگ گیا

چشم و ابرو پر نہیں موقوف کچھ
جان من دل جس کا اٹکا لگ گیا

جام گل میں کیوں نہ دے شبنم گلاب
صبح دم غنچے کو چٹکا لگ گیا

منزل گم کردہ اک میں ہوں نصیرؔ
راہ سے جو کوئی بھٹکا لگ گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse