زلف جو رخ پر ترے اے مہر طلعت کھل گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زلف جو رخ پر ترے اے مہر طلعت کھل گئی
by بہادر شاہ ظفر

زلف جو رخ پر ترے اے مہر طلعت کھل گئی
ہم کو اپنی تیرہ روزی کی حقیقت کھل گئی

کیا تماشا ہے رگ لیلیٰ میں ڈوبا نیشتر
فصد مجنوں باعث جوش محبت کھل گئی

دل کا سودا اک نگہ پر ہے تری ٹھہرا ہوا
نرخ تو کیا پوچھتا ہے اب تو قیمت کھل گئی

آئینے کو ناز تھا کیا اپنے روئے صاف پر
آنکھ ہی پر دیکھتے ہی تیری صورت کھل گئی

تھی اسیران قفس کو آرزو پرواز کی
کھل گئی کھڑکی قفس کی کیا کہ قسمت کھل گئی

تیرے عارض پر ہوا آخر غبار خط نمود
کھل گئی آئینہ رو دل کی کدورت کھل گئی

بے تکلف آئے تم کھولے ہوئے بند قبا
اب گرہ دل کی ہمارے فی الحقیقت کھل گئی

باندھی زاہد نے توکل پر کمر سو بار چست
لیکن آخر باعث سستی ہمت کھل گئی

کھلتے کھلتے رک گئے وہ ان کو تو نے اے ظفرؔ
سچ کہو کس آنکھ سے دیکھا کہ چاہت کھل گئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse