زلف اندھیر کرنے والی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زلف اندھیر کرنے والی ہے
by حاتم علی مہر

زلف اندھیر کرنے والی ہے
تم نے ناگن بلا کی پالی ہے

قلمیں رخسار یار پر دیکھو
سرخ ہے پھول سبز ڈالی ہے

غیر پر لطف ہے ستم ہم پر
ان کی جو بات ہے نرالی ہے

واہ کیا منہ سے پھول جھڑتے ہیں
کتنی پیاری تمہاری گالی ہے

مرغ دل بھی ہے ساتھ چڑیا کے
جال انگیا کی ان کی جالی ہے

شب فرقت کو دیکھ بخت سیاہ
کوئی بھی رات اتنی کالی ہے

کیوں قیامت کی چال چلتی ہو
اس میں عاشق کی پائمالی ہے

دہن یار کا پتا نہ لگا
بات کہنے کو اک بنا لی ہے

ناف معشوق صاف موتی کی
ننھی منی سی اک پیالی ہے

کیوں کر ان کو دوں مہر و مہ سے مثال
جن کو دعویٰ بے مثالی ہے

رنگ لائی گلوریاں کہہ کر
لال ہونٹھوں پہ اور لالی ہے

دل تصور میں محو رہتا ہے
عاشق شاہد خیالی ہے

کیوں ہنسائے نہ مجھ سے رند کو بنگ
دخت رز کی بہن ہے سالی ہے

دم غنیمت ہے اس مسیحا کا
اب طبیبوں سے شہر خالی ہے

خاک اڑائی ہے ان کے کوچہ کی
ہم نے سر پر زمیں اٹھا لی ہے

دل مرا لے کے عرش پر ہے دماغ
اور ہی اب مزاج عالی ہے

کیوں بتوں کی ہمیں محبت دی
کیا مصیبت خدا نے ڈالی ہے

واں کبھی غیر سے کبھی ہم ہیں
روز موقوفی اور بحالی ہے

دے کے اک بوسۂ لب جاں بخش
تن بے جاں میں جان ڈالی ہے

کیا بلا گوری گوری رنگت پر
زلف کالی ہے آنکھ کالی ہے

حال میں شاعری کا ہے یہ ڈھنگ
اپنا جو شعر ہے وہ حالی ہے

دیکھو مجھ پر بہت ستم نہ کرو
پاس اے جان کوتوالی ہے

ہم سے انکار وصل کا ہے عبث
ہوگی جو بات ہونے والی ہے

ان کے کوچہ میں خاک ہو جائیں
ہم نے اک راہ یہ نکالی ہے

یار پہلو میں ہے نہ جام شراب
یہ بھی خالی ہے وہ بھی خالی ہے

ہے ستم یہ انیلے پن کا بناؤ
کان میں ایک ایک بالی ہے

اس کے مذہب کا اعتبار ہے کیا
مہرؔ اک رند لاابالی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse