زلفیں چھوڑیں ہیں کہ جوڑا اس نے چھوڑا سانپ کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زلفیں چھوڑیں ہیں کہ جوڑا اس نے چھوڑا سانپ کا
by رند لکھنوی

زلفیں چھوڑیں ہیں کہ جوڑا اس نے چھوڑا سانپ کا
دیکھیے کس کس کو ڈستا ہے یہ جوڑا سانپ کا

گورے گالوں پر ترے زلفیں یہ لہراتی نہیں
یاسمیں زار صباحت میں ہے جوڑا سانپ کا

عشق ان زلفوں کا مجھ سے ترک ہونے کا نہیں
ہے مرا ہم زاد اے ناصح یہ جوڑا سانپ کا

دونوں زلفیں یار کی الٹی ہیں بالوں پر مرے
وجد کرتا ہے صدائے نے یہ جوڑا سانپ کا

منڈ گئیں زلفیں ہیں شاعر کس سے اب دیں گے مثال
ہو گیا تشبیہ کی خاطر بھی توڑا سانپ کا

عمر بھر دل کو خیال گیسوئے پیچاں رہا
دھیان اس نادان نے ہرگز نہ چھوڑا سانپ کا

نقرئی موباف چوٹی میں رہا ان کی سدا
کینچلی نے عمر بھر پیچھا نہ چھوڑا سانپ کا

پڑ گئی ایذا دہندی کی تری زلفوں کو خو
کاٹتا ہے اڑ کے عاشق کو یہ جوڑا سانپ کا

کچھ سمجھ کر رہا ہوں یار کی زلفوں کی داشت
پالتا ہوں اپنے کٹوانے کو جوڑا سانپ کا

شام سے ان گیسوؤں کی یاد میں جو سو رہا
خواب میں دیکھا کیا تا صبح جوڑا سانپ کا

عشق میں گیسو و ابرو کے اگر دینی ہے جان
نیش عقرب کھا کے پی لے زہر تھوڑا سانپ کا

واسطے موذی کے آخر میں بھی موذی بن گیا
سر کسی حالت میں بے کچلے نہ چھوڑا سانپ کا

عشق گیسو میں نہ قطرہ بھی تلف ہونے دیا
زہر سارا حلق میں میں نے نچوڑا سانپ کا

خط پہ آتے ہیں بہت لہرا کے گیسو یار کے
سبزہ نوخیز پر غش ہے یہ جوڑا سانپ کا

حلقۂ گیسوئے شب کو ذرۂ افشاں چنی
رات کو چن چن کے اک اک دانت توڑا سانپ کا

ہر قدم پر مار کر سر کر رہا ہے ناگ پیچ
اب چلن سیکھا ہے اس موذی نے تھوڑا سانپ کا

دشمن جانی کو اپنے دی نہ ایذا رندؔ نے
دانت ہی توڑا نہ چھالا اس نے پھوڑا سانپ کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse