زعم نہ کیجو شمع رو بزم کے سوز و ساز پر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زعم نہ کیجو شمع رو بزم کے سوز و ساز پر
by سائل دہلوی

زعم نہ کیجو شمع رو بزم کے سوز و ساز پر
رکھیو نظر بجائے ناز خاطر پیر ناز پر

زیب نہیں ہے شیخ یہ مے کش پاکباز پر
تہمتیں سو لگائے گا داغ جبیں نیاز پر

کہتا ہوں ہر حسیں سے میں نیت عشق ہے مری
آئے گا میرا دل مگر شاہد دل نواز پر

فرق حیات و مرگ کا مرغ چمن کے دل سے پوچھ
دیتا ہے فوق دام کو چنگل شاہباز پر

خواب لحد ہے پر سکوں عہد حیات پر الم
موت نہ کیوں ہو طعنہ زن زندگئ دراز پر

سنگ در حبیب پر ہوتا ہوں سجدہ ریز میں
خلق خدا ہے معترض مجھ پہ مری نماز پر

منعم بے بصر یوں ہی دیکھیے تا کجا رہے
محو نشاط و خوش دلی نغمۂ تار ساز پر

فخر عمل نہ چاہیئے سعی عمل ضرور ہے
آنکھ رہے لگی ہوئی رحمت کارساز پر

در پہ بتوں کے دی صدا سائلؔ بے نوا نے یہ
فضل خدا رہے مدام حال گدا نواز پر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse