زخمی ہوں ترے ناوک دزدیدہ نظر سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زخمی ہوں ترے ناوک دزدیدہ نظر سے
by محمد ابراہیم ذوق

زخمی ہوں ترے ناوک دزدیدہ نظر سے
جانے کا نہیں چور مرے زخم جگر سے

ہم خوب ہیں واقف ترے انداز کمر سے
یہ تار نکلتا ہے کوئی دل کے گہر سے

پھر آئے اگر جیتے وہ کعبہ کے سفر سے
تو جانو پھرے شیخ جی اللہ کے گھر سے

سرمایۂ امید ہے کیا پاس ہمارے
اک آہ ہے سینہ میں سو نامید اثر سے

وہ خلق سے پیش آتے ہیں جو فیض رساں ہیں
ہیں شاخ ثمر دار میں گل پہلے ثمر سے

حاضر ہیں مرے جذبۂ وحشت کے جلو میں
باندھے ہوئے کہسار بھی دامن کو کمر سے

لبریز مئے صاف سے ہوں جام بلوریں
زمزم سے ہے مطلب نہ صفا سے نہ حجر سے

اشکوں میں بہے جاتے ہیں ہم سوئے در یار
مقصود رہ کعبہ ہے دریا کے سفر سے

فریاد ستم کش ہے وہ شمشیر کشیدہ
جس کا نہ رکے وار فلک کی بھی سپر سے

کھلتا نہیں دل بند ہی رہتا ہے ہمیشہ
کیا جانے کہ آ جائے ہے تو اس میں کدھر سے

اف گرمیٔ وحشت کہ مری ٹھوکروں ہی میں
پتھر ہیں پہاڑوں کے اڑے جاتے شرر سے

کچھ رحمت باری سے نہیں دور کہ ساقی
روئیں جو ذرا مست تو مے ابر سے برسے

میں کشتہ ہوں کس چشم سیہ مست کا یا رب
ٹپکے ہے جو مستی مری تربت کے شجر سے

نالوں کے اثر سے مرے پھوڑا سا ہے پکتا
کیوں ریم سدا نکلے نہ آہن کے جگر سے

اے ذوقؔ کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse