زخمی نہ بھول جائیں مزے دل کی ٹیس کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زخمی نہ بھول جائیں مزے دل کی ٹیس کے
by منیرؔ شکوہ آبادی

زخمی نہ بھول جائیں مزے دل کی ٹیس کے
للہ چھڑکے جاؤ نمک پیس پیس کے

غصہ ہے زہر حق میں دل بے انیس کے
الماس پیستے ہو عبث دانت پیس کے

میلی نگاہ ہوتی ہے آئینہ دیکھ کر
نظارے مدتوں سے ہیں روئے نفیس کے

خلوت میں ہی تصور جاناں ندیم ہے
طالب جلیس کے ہیں نہ خواہاں انیس کے

معنی نہ پائے جوہر شمشیر یار کے
ٹکڑے جگر کے ہو گئے ٹکڑے کسیس کے

پھیکا ہی ذائقہ دہن زخم کا رہا
کیا بد مزا ہوا میں نمک پیس پیس کے

پیر فلک کسی کو نہ دے گا زر نجوم
یعنی درم ہیں یہ کف دست خسیس کے

کٹ کٹ گیا میں دیکھ کے مضمون قتل کو
اے بت قلم ہوں ہاتھ ترے خوش نویس کے

دس بیس ہر مہینے میں ابرو نظر پڑے
اس سال سارے چاند ہوئے تیس تیس کے

حرف آ گیا شکستگیٔ دل کے لکھنے میں
ٹوٹے قلم ہزاروں شکستہ نویس کے

لکھتے ہیں چھپ کے کاتب اعمال سب کا حال
اعمال نامہ پرچہ ہیں خفیہ نویس کے

مکتوب میں عبارت رنگیں لکھو منیرؔ
فقرے نہیں پسند دقیق و سلیس کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse