زباں مدعا آشنا چاہتا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زباں مدعا آشنا چاہتا ہوں
by فانی بدایونی

زباں مدعا آشنا چاہتا ہوں
دل اب زندگی سے خفا چاہتا ہوں

ادا کو ادا آشنا چاہتا ہوں
تجھی پر تجھے مبتلا چاہتا ہوں

وفا چاہتے ہیں وفا چاہتا ہوں
وہ کیا چاہتے ہیں میں کیا چاہتا ہوں

محبت کو رسوا کیا چاہتا ہوں
نظر محرم التجا چاہتا ہوں

تعین غم عشق کا چاہتا ہوں
انہیں چاہتا ہوں یہ کیا چاہتا ہوں

ترے دل کو درد آشنا چاہتا ہوں
بھلا چاہتا ہوں برا چاہتا ہوں

بہت تنگ ہے وہم ہستی کی دنیا
میں عالم ہی اب دوسرا چاہتا ہوں

شب ہجر تیرا تصور ہی تو ہے
تجھے آج تجھ سے جدا چاہتا ہوں

مری موت ماتم کا حسن طلب ہے
سکوں ایک ہنگامہ زا چاہتا ہوں

خطا ڈھونڈتا ہوں عطاؤں کے قابل
عطا چاہتے ہیں خطا چاہتا ہوں

پھر اس بزم کو ڈھونڈتی ہیں نگاہیں
پھر اک شکوۂ برملا چاہتا ہوں

وہ فریاد کا عہد پھر یاد آیا
پھر اک نالۂ نارسا چاہتا ہوں

پھر آداب فرقت ہیں ملحوظ یعنی
ہجوم بلا در بلا چاہتا ہوں

پھر اک سجدۂ توبہ کی آرزو ہے
تجھے آپ سے پھر خفا چاہتا ہوں

پھر امیدوار کرم ہوں کہ فانیؔ
ستم ہائے شوق آزما چاہتا ہوں

کوئی وجہ تسکیں نہیں غم نہ راحت
خدا جانے فانیؔ میں کیا چاہتا ہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse