زبان شمع کھلتی ہے نہ کچھ پروانہ کہتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زبان شمع کھلتی ہے نہ کچھ پروانہ کہتا ہے
by کیفی چریاکوٹی

زبان شمع کھلتی ہے نہ کچھ پروانہ کہتا ہے
مگر سارا زمانہ بزم کا افسانہ کہتا ہے

بقدر ظرف قسمت میرے ساقی کی عنایت ہے
کوئی پیمانہ کہتا ہے کوئی مے خانہ کہتا ہے

حجاب لالہ و گل کو مہ و انجم کے پردے کو
وہی کہتا ہوں میں جو جلوۂ جانانہ کہتا ہے

شب غم میں جو اپنے دل سے کچھ کہنے کو کہتا ہوں
تو جس سے بخت سو جائے وہی افسانہ کہتا ہے

خدا کہتے ہیں کہہ لینے دو تم ارباب ملت کو
محبت تو یہی کہتی ہے جو دیوانہ کہتا ہے

یہی ایمان مستی ہے یہی ہے دین مستوں کا
وہی ہوتا ہے جو کچھ ساقئ مے خانہ کہتا ہے

یہی کیفیؔ یہی ہے بے پیے ساقی کا متوالا
قدم مستانہ رکھتا ہے سخن مستانہ کہتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse