زبان اردو کی ترقی کا مسئلہ/زبان اردو کی ترقی کا مسئلہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

زبان اردو کی ترقی کا مسئلہ ڈیمانڈ اور سپلائی کا اصول


بخدمت جناب ایڈیٹر صاحب “معارف”!

جناب من! میں نے اردو لٹریچر کے “نَفَسِ واپسیں” کے عنوان سے حال میں ایک مضمون لکھا تھا جس سے بعض حلقوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ “پرستارانِ شبلی”کے مقابلہ میں دراصل اس سے انجمن اردو کی تنقیص مد نظر تھی،لیکن واقعی بات یہ نہیں ہے۔ میں نے انجمن کو اس کی اہم ذمہ داریوں کے لحاظ سے ٹوکا تھا یعنی توقعات زیادہ ہوتی ہیں تو فروگذاشت کسی حیثیت سے ہو مایوس کن ہوتی ہے۔

انجمن جو کچھ کر رہی ہے میں اسے قوم کی عام بے التفاتی کے لحاظ سے بہت قابل قدر سمجھتا ہوں، اسی طرح مجھ کو دار الاشاعت لکھنؤ سے پوری ہمدردی ہے جو انجمن کے کارناموں کی مقدار کے ساتھ اس کی صفات کو بھی گراں وزن کر رہا ہے اور گو ایک غیر ذمہ دار جنس لطیف نے ظفر الملک سے ایک موقع پر کیفیت نہیں بلکہ جواب طلب کیا تھا لیکن یہ بڑی ناشکری ہوگی اگر ترقی اردو کے آلۂ محرک (لِور) سے ایک منٹ کے لیے قطع نظر کی جائے؛ تاہم میں نہیں مانتا کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ قدرتی طور پر ہماری ضروریات کے مطابق ہے۔

ملک کی کسی تعلیم یافتہ جماعت نے کبھی اس پر غور نہیں کیا کہ ہر چیز ایک نظام طبعی رکھتی ہے اور اردو زبان بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ کانفرنس ہو یا انجمن ترقی اردو، زبان کا مسئلہ کبھی اس حیثیت سے پیش نظر نہیں رہا، یہاں تک کہ ان لائق ادب افراد نے (جن کے دل و دماغ کے نتائج آج اردو کا بہترین سرمایۂ ادب ہیں) منفرداً یا متفقاً کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ لٹر یچر کی فطری ضروریات کے لحاظ سے کون کون سے کام ہیں جن پر ترتیباً سب سے پہلے توجہ ہونی چاہیے اور دراصل ترقی اردو کے نظام ترکیبی کا اقتضائے طبعی کیا ہے۔

یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ ملک میں جہاں تک مختلف اصناف سخن کا تعلق ہے، لٹریچر کا ذخیرہ بڑھ رہا ہے لیکن کیا یہ انتشارِ عمل کسی قاعدہ کلیہ کی تحت میں ہے یا ہم اس سے کسی حقیقی فوائد کے متوقع ہو سکتے ہیں؟

میں نے اسی خیال سے پروفیسر براؤن آف کیمبرج کو جو آج کل کے مستشرقین یورپ میں ایک زبردست شخصیت رکھتے ہیں اور جن کو مشرقی لٹریچر سے خاص دلچسپی ہے لکھ کر دریافت کیا، ممدوح کی رائے کے مطابق ہم کو ترقی زبان کے لیے سب سے پہلے تالیفاتِ ذیل مرتب کرنی ہوں گی:

(١) جامع اللغات اردو

(٢) محاورات

(٣) لغات الاصطلاحات

(٤) لغات فارسی (جہاں تک اردو کی تکمیل کا تعلق ہے)

(٥) لغات عربی (بہ ترتیب جدید)

(٦) ادب الاساتذہ (12 ضخیم جلدوں میں)

(٧) جامع القواعد اردو

(٨) عقلیات (یعنی فلسفہ اور سائنس کی ہر شاخ پر ایک مستقل کتاب)

(٩) اردو انسائیکلوپیڈیا (جو بظاہر علوم اعصریہ ہوگی)

کسی زبان کو سرمایہ دار اور بااصول کرنے کی یہ قدرتی ترتیب ہے جس سے براؤن کی رائے کے مطابق قطع نظر نہیں ہو سکتی۔ ہم کو محض بے غایۃ رسائل کی اشاعت سے خواہ وہ فی نفسہ مفید بھی ہوں صرف مطبوعات کی تعدادبڑھانی نہیں ہے بلکہ ان وسائل کی تکمیل کے ساتھ جو زبان کی ترقی کے لیے لازم سے ہیں،یہ دیکھنا ہے کہ نا آشنایانِ سخن کو کس طرح زبان کا دلدادہ بنایا جائے۔

اس کے لیے فاضل پروفیسر کی رائے ہے کہ کثرت سے “صالح لٹریچر” کی اشاعت کی جائے۔اسی طرح ضخیم لغات کی ترتیب کے بعد اردو، فارسی اور عربی کی لاکھوں جلدیں “لغات المبتدی” کی حیثیت سے مرتب کی جائیں اور اس کثرت سے شائع کی جائیں کہ بچہ بچہ کے ہاتھوں میں ہوں۔

میرا خیال ہے کہ پروفیسر براؤن کی یہ اسکیم نسبتاً اس قدر ضروری ہے کہ اس کا ذکر آپ کے وقیع پرچہ میں نہ آئے تو لٹریچر کی حق تلفی ہوگی۔

ایم مہدی حسن


کشیم نالہ خدا آسمان نگہدارد

پروفیسر براؤن نے انگلستان میں بیٹھ کر ہندوستان کی ملکی زبان کی نسبت جو کچھ لکھا ہے اصولاً اس کی تسلیم میں کس کو عذر ہو سکتا ہے،لیکن ذرا ان کو عملاً بھی ایک محکوم قوم کی زبان کے مشکلات سے واقفیت حاصل کرنی چاہیے۔ اس زمانہ میں محکوم قوم کی زبان کی ترقی کا مسئلہ عملی حیثیت سے ایسا نہیں ہے کہ صرف ایک دو آدمی یا ایک مجلس کے طے کردینے سے طے ہوجائے۔ وہ زمانہ گذر چکا جب ایک رستم تنہا ماژندران کے سارے دیوستان کو فتح کرسکتا تھا، اب اس کے لیے کلدار توپیں، لا تعداد گولے، بے شمار تربیت یافتہ فوجیں اور غیر محدود سامان چاہیے اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ آسمان و زمین کے خزانوں کی کنجیاں ہاتھ میں ہوں۔

ہم کو تصنیفات کی ضرورت ہے، تصنیفات کے لیے سامان طبع کی حاجت اور سامان طبع کے لیے سرمایہ کی ضرورت۔ ہم کو مصنفین چاہئیں لیکن مصنفین کو فراغ چاہیے اور فراغ روپیہ سے ہوسکتا ہے۔ الغرض سب سے اول اور سب سے پہلے مصنفین اور تصنیفات کا سوال نہیں بلکہ سرمایہ اور روپیہ کا سوال ہے، سرمایہ اور روپیہ کیوں کر ہاتھ آ سکتا ہے؟حکومت سے یا قوم سے، موجودہ نظام حکومت کا طرز عمل ایسی امداد کے لیے آمادہ نہیں،اب صرف قومی خزانہ کی طرف ہمارا ہاتھ بڑھ سکتا ہے لیکن حالت یہ ہے کہ قوم اپنے خزانہ کا منہ اسی وقت کھول سکتی ہے جب اس کو روزانہ کاروبار اور اپنی عام زندگی کے لیے ہماری ضرورت محسوس ہو۔

اردو کی ترقی اور تکمیل کے لیے متعدد تجویزیں اب تک پیش ہو چکی ہیں لیکن ہمارے نزدیک یہ اس وقت تک ناقابل عمل ہیں جب تک ملک میں اس کی مانگ اور اس کی قدر دانی کا جذبہ نہ پیدا ہو۔ بہت سے دوستوں نے نیک نیتی سے اردو انسائیکلوپیڈیا کی تجویز کی مخالفت کی اور سنجیدہ دلیلیں پیش کیں؛ چنانچہ سب سے پہلے روپیہ کا سوال پیش آیا، ہم نے کہا ایک دو صاحبانِ ہمت نے بھی ہمارا ساتھ دیا تو بس ہے، لکھنے والوں کی نسبت سوال آیا تو ہم نے ملک کے ارباب قلم کے نام گنا دیے جن میں سے عملاً اکثر کام کرنے کے لیے تیار تھے، لیکن جب یہ سوال آیا کہ اس کی کتنی جلدیں چھپیں گی اور کتنے لوگ اس کی خریداری کو آمادہ ہوں گے، اس وقت ہم نے شائقین کی فہرست پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ مشکل سے سو دو سو نسخے فروخت ہو سکتے ہیں۔ “سیرت نبوی” جس کے غلغلہ سے ہندوستان کا گوشہ گوشہ گونج اٹھا ہے اور ہمارے احباب کا بیان ہے کہ ملک نہایت بے چینی سے اس کا منتظر ہے،اس وقت تک اس کے دفتر میں خریداروں کے صرف ٣٠٠ نام رجسٹرڈ ہوئے ہیں؛ پھر اردوکے لیے کوئی کس برتے پر کسی بڑے کام کی ہمت کرے۔

استاذ مرحوم نے شعر العجم جب لکھی تھی تو خیال تھا کہ ہندوستان کو شاعری سے ایک فطری لگاؤ ہے اور خصوصاً فارسی شاعری تو اب تک کالجوں میں زندہ ہے، لیکن آپ کو معلوم ہے اس کے ٥٠٠ نسخے پورے پانچ برس میں بکے۔ انجمن ترقی اردو اپنے مطبوعات کا پشتارہ باندھے تمام ملک کا چکر لگا رہی ہے تاہم اس کی سالانہ روداد میں مطبوعات کی خریداری اور آمدنی کی قابل افسوس تعداد نظر آتی ہے۔ دارالمصنفین کا بھی یہی حال ہے۔

بیس تیس برس میں کیا سے کیا ہو گیا۔ المامون ١٨٨٩؁ء میں پہلی دفعہ چھپی تھی، مولانائے مرحوم فرماتے تھے کہ صرف تین مہینے میں پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا تھا۔ سر سید کی تصنیفات جو تمام تر عربی سے ماخوذ، عربی عبارتوں اور دقیق اور مشکل بحثوں سے بھری ہوتی تھیں،لوگ برابر پڑھتے تھے۔ بات یہ تھی کہ اس زمانے تک ملک میں انگریزی کا پورا رواج نہ تھا، عربی اور فارسی زبان زندہ تھیں، جدید تعلیم نے دماغوں کو صرف تفریحی مشاغل کا آشیانہ جس طرح آج بنا رکھا ہے اس وقت تک نہ تھا، اس لیے ایک حالت قائم تھی۔ انگریزی تعلیم جیسے جیسے پھیلتی گئی، اردوجس کا تانا بانا سارا عربی اور فارسی سے ہے ان کے لیے نا قابلِ فہم ہوتی گئی؛ آج ان کے ہاتھ میں اگر تفسیر احمدی یا النظر فی بعض مسائل الامام الغزالی دے دی جائے تو شاید اس کی چند سطریں بھی وہ صحیح نہ پڑھ سکیں، حالانکہ سر سید کا طرز تحریر نہایت صاف،شستہ اور سہل ہے۔

جدید تعلیم نے ہماری زبان میں جو مایہ ناز افراد پیدا کیے، وہ وہی تھے جن کو کم و بیش اپنے مشرقی علوم پر اطلاع تھی۔ سید محمود، سید علی بلگرامی، سید حسین بلگرامی یہ نام ہمارے ملک اور زبان کے لیے معیار فخر ہیں لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو انگریزی کی اعلی تعلیم کے ساتھ اپنے مشرقی علوم میں مُتَبَحِر ہیں۔ ان سے نیچے اتر کر مولوی عزیز مرزا، خواجہ غلام الثقلین مرحوم وامثالہم کے مغربی فضل و کمال کے چہرہ پر اصلی آب و رنگ مشرقی علوم و السنہ کی واقفیت کا تھا۔ اس وقت بھی جو لوگ موجود ہیں اور جن کو ہم جدید تعلیم کا بہترین نمونہ سمجھتے ہیں وہ مشرقیات سے بے بہرہ نہیں ہیں۔

یہ حالت کچھ مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، ہندوؤں کا بھی یہی حال ہے۔ دکن کے ہندوؤں میں جدید تعلیم کے تخم نے جو قابل عظمت اشخاص پیدا کیے ہیں ان میں کوئی ایسا نہیں ہے جو سنسکرت سے بے بہرہ ہو؛ جسٹس راناڈے، مسٹر گوکھلے، ڈاکٹر بھنڈارکر،مسٹر تلک مشرق و مغرب کے پیوند نے ان کے نخلِ کمال کو بار آور کیا ہے۔ بنگالیوں کا بھی یہی حال ہے اور یہی ان کی ملکی زبان کی ترقی کا راز ہے۔ البتہ ہمارے صوبہ میں ہندو نوجوانوں کی حالت مسلمان نوجوانوں سے ممتاز نہیں ہے۔

ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ حالت ہے کہ ہمارے انگریزی خواں دوست اردو اخبارات اور تصنیفات کو ہاتھ تک لگانا جرم سمجھتے ہیں۔ ترجمہ کے لیے انگریزی کی دو سطریں دیجیے تو یہ کہہ کر مغرورانہ انداز سے کاغذ میز پر رکھ دیں گے کہ “بڑی مشکل ہے کہ اس کے لیے اردو میں الفاظ نہیں”، اردو میں الفاظ نہیں یا آپ کی نظر میں وسعت نہیں۔ اصل یہ ہے کہ کچھ تو اس تعلیم کا یہ اثر ہے کہ غور و فکر، دقت بینی اور نکتہ رسی کی قوت نوجوانوں سے مفقود ہو جاتی ہے اور اس لیے علمی دلچسپی اور مذاقِ سلیم سے بے بہرہ رہتے ہیں اور زیادہ تر یہ ہے کہ ایک مدت تک اجنبی زبان اور بیگانہ خیالات پڑھتے پڑھتے اور سنتے سنتے اپنی مادری زبان سے قدرۃً ان کو بُعد ہوجاتا ہے اور چار جملے بھی غیر ضروری انگریزی الفاظ کی آمیزش کے بغیر نہیں لکھ سکتے بلکہ اپنی مادری زبان سے ان کو ایک گونہ نفرت سی ہے اور اس میں لکھنا پڑھنا اپنے لیے عار سمجھتے ہیں۔ جب تک یہ حالت قائم ہے زبان کی ترقی کی کوشش بے سود ہے۔

لکھنؤ کے تاریخی افسانے اور دلّی کے مذہبی چٹکلے ممکن ہے کہ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتے ہوں لیکن مستند، متین اور صالح لٹریچر کی مانگ ملک میں مطلق نہیں ہے اس لیے وہ پیدا بھی نہیں ہوسکتا۔ قدرت صرف اسی چیز کو پیدا کرتی ہے جس کی طلب اور تلاش ہو۔ اگر مصنوعی طریقے سے ایسی چیزیں پیدا بھی ہوں گی تو زندہ نہ رہیں گی۔ چنانچہ کلکتہ کے اردو کالج (١٨٠٠؁ء) سے جوکتابیں نکلیں، چند کہانیوں کو چھوڑ کر جن کا نام شاید آپ نے سنا ہو اس کی کسی علمی اور مفید تصنیف کا نام آپ نے سنا ہے؟ حالانکہ اردو زبان کی سب سے پہلی قواعد کی کتاب صرفِ اردو یہیں لکھی گئی۔ اردو سوسائٹی دلی (١٨٤٠؁ء) کی تصنیفات آپ کی نظر سے گذری ہیں، حالانکہ علم الاقتصاد (پولٹیکل اکانمی) کی پہلی کتاب اسی سوسائٹی کی طرف سے شائع ہوئی ہے۔ اردو سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ کا نام سر سید کے تعلق سے زبانوں پر آتا ہو لیکن اس کی چالیس فیصد مطبوعات علمی کے نام آپ کو معلوم ہیں اور آپ کے کتب خانے میں اس کا سلسلہ موجود ہے؟ حالانکہ زراعت اور علم البرق اور دیگر علوم طبعی و تاریخی کی جدید الضرب سکے پہلے اسی ٹکسال میں ڈھلے۔انجمن پنجاب تو آپ کے ہوش میں قائم ہوئی ہوگی، ١٨٨٥؁ء میں جدید علم النفس پر اردو میں سب سے پہلے وہیں سے ایک مستقل تصنیف ترجمہ ہوکر شائع ہوئی آپ جانتے ہیں۔

اس وقت ملک میں جو اخبار اور رسالے نکل رہے ہیں ان کے خریداروں کا جائزہ لیجیے تو معلوم ہو جائے کہ ان میں انگریزی تعلیم یافتوں کا کتنا کم عنصر شامل ہے اور پھر ہمارا مغرور صوبہ تو اس دوڑ میں سب سے پیچھے ہے۔ تعجب ہوگا کہ تقریباً ہندوستان کے ہر اردو اخبار اور رسالے کی خریداری وہاں زیادہ نہیں ہے جہاں وہ زبان بولی جاتی ہے بلکہ وہاں ہے جہاں ابھی لوگ اس کو سمجھ رہے ہیں۔ زیادہ تر خریدار کہاں سے ہاتھ آئیں گے متوسط، مدراس، حیدرآباد،گجرات، سندھ اور رنگون وغیرہ سے، اس کا سبب صرف یہ ہے کہ ان ممالک کے مسلمانوں میں اب تک انگریزی تعلیم عام نہیں ہوئی ہے اور ابھی تک علم و اطلاع کا ذریعہ وہاں اردو ہی ہے۔

مصر میں ہندوستان سے عام تعلیم نسبتاً کم ہے لیکن چونکہ تعلیم کی زبان عربی ہے اس لیے وہاں جدید عربی لٹریچر ہمارے ہاں سے زیادہ وقیع اور بہتر ہوگیا۔ حیدرآباد میں اردو یونیورسٹی قائم ہو رہی ہے، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہاں چند روز میں اردو زبان علمی تصنیفات سے مالا مال ہو جائے گی۔ چنانچہ ابھی سے وہاں ایسے صیغے قائم ہو رہے ہیں جو انگریزی خیالات اور مغربی علوم کو اپنی زبان میں منتقل کر سکیں اور اردو ذریعۂ تعلیم ہونے کے باعث یہ کتابیں تمام ملک میں پھیل جائیں گی۔ اس کا قیاس صرف ایک واقعہ سے کر سکتے ہیں، شعر العجم جس کی نسبت میں نے پہلے کہا کہ اس کے ٥٠٠ نسخے پانچ ہی برس میں نکلے، دو برس سے اس کی کچھ جلدیں لاہور کے مشرقی صیغہ نے اپنے نصاب میں داخل کرلی ہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ شعر العجم کا ایک ایک نسخہ اشرفی کے مول بک رہا ہے اور اس کے طبع ثانی جگہ جگہ انتظام ہو رہا ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ اردو زبان کی بیسیوں تاریخی اور مذہبی کتابیں گھر گھر پھیلی ہیں اور ہمیشہ لوگ ان کو خریدتے اور پڑھتے ہیں لیکن ہم عرض کریں گے کہ یہ علم پرستی کا نتیجہ نہیں بلکہ ہماری سلف پرستی اور مذہب پرستی کا نتیجہ ہے۔

نیست در دائرۂ یک نقطہ خلاف از کم و بیش


کہ من ایں مسئلہ بے چوں و چرا می بینم


پروفیسر براؤن نے ہماری زبان کی ترقی کے لیے جو خاکہ تیار کیا ہے اس میں لغات و محاورات اردو کی جگہ سب سے پہلے ہے۔ اولاً اسی پر غور کیجیے، ابتداءً جب اہل یورپ ہندوستان آئے تو ان کو اردو سیکھنے کی ضرورت پیش آئی اس لیے اردو کے قواعد و محاورات پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں، گورنمنٹ نے ابتدائی درجوں میں اردو کو داخل کیا، اس کی بدولت ہر سال قواعد اردو کے متعدد رسالے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ ان کثیر التعداد رسالوں کو چھوڑ کر جو اہل یورپ نے اپنی ضرورت سے مختلف زبانوں میں لکھے، نیز ان بیسیوں کتابوں سے قطع نظر کر کے جو اسکول کے بچوں کے لیے لکھی گئیں، قواعد کی حسب ذیل کتابیں ہماری زبان میں موجود ہیں:

(١) صرف اردو شیدا ١٨٠١؁ء

(٢) دریائے لطافت سید انشا ١٨٠٢؁ء

(٣) رسالہ صرف و نحو مولوی احمد علی دہلوی ١٨٤٥؁ء

(٤) رسالہ صرف و نحو مولوی صہبائی دہلوی ١٨٤٩؁ء

(٥) رسالہ صرف و نحو مولوی احمد حسن الہ آبادی ١٨٥٩؁ء

(٦) رسالہ صرف و نحو سید احمد خان دہلوی ١٨؁ء

(٧) قواعد اردو مرزا نثار علی بیگ مدرس اول آگرہ کالج ١٨٦١؁ء

اس کے بعد اردو زبان کی طرف سے انگریزوں کو بے اعتنائی ہوئی اور دفعتاً اس کی ترقی رک گئی پھر اس وقت تک اس کی طرف توجہ نہ ہوئی جب تک انجمن ترقی اردو کا وجود نہ ہوا۔ انجمن کی کوشش سے قواعد اردو پر دو نہایت عمدہ کتابیں تالیف پائیں:

(١) مصباح القواعد منشی فتح محمدصاحب جالندھری ١٩٠٤؁ء

(٢) قواعد اردو مولوی عبد الحق صاحب ١٩١٤؁ء

مصباح القواعد میں جزئیات کے استقصا کا خیال زیادہ کیا گیا ہے اور قواعد اردو میں اصولِ کلیہ بنانے اور تحقیق و تلاش کا پہلو زیادہ مد نظر ہے۔

محاورات اور لغات کو لیجیے، ان کا بھی یہی حال ہے:

شمس البیان فی مصطلحات ہندوستان مرزا خان تپش ١٢٨٣؁ھ

دریائے لطافت سید انشا ١٢٢٢؁ھ

کلیدِ سخن سید محمد حسین ١٨٠٢؁ء

خزائن الامثال شمس الدین فیض ١٢٨٢؁ھ

فرہنگ آصفیہ مولوی سید احمد دہلوی ١٨٨١؁ء

دستور الشعراء خواجہ محمد اشرف لکھنوی ١٨٨٩؁ء

مخزن الاسرار نیاز علی بیگ ١٢٨٣؁ھ

رسالہ زباندانی چرونجی لال ١٨٨٤؁ء

مخزن المحاورات منشی رجو لال ١٨٩٨؁ء

محاوراتِ اردو مجھو بیگ عاشق لکھنوی ١٨؁ء

گنجینۂ زبان اردو جلال لکھنوی ١٢٩٧؁ھ

سرمایۂ زبان اردو جلال لکھنوی ١٣٠٤؁ھ

امیر اللغات امیر لکھنوی (ناقص) ١٨٩١؁ء

مصطلحات اردو خواجہ محمد اشرف لکھنوی ١٨٩٠؁ء

لغات ہندی (قلمی موجودہ ندوہ) ١٢٢٣؁ھ

لغات فیروزی(طلبائے مدارس کے لیے) فیروز الدین ١٩٠٤؁ء

فرہنگ اردو(طلبائے مکاتب کے لیے) حمایت اسلام لاہور ؁

دوپیکر (تذکیر و تانیث) ظہیر الدین خان ١٩٠٢؁ء

رسالہ تذکیر و تانیث مولوی شہید الدین صاحب بنارسی ١٩؁ء

تذکیر و تانیث حافظ جلیل حسن صاحب مانک پوری ١٣٢٦؁ھ

فرہنگ آصفیہ ہماری زبان کا سب سے بڑا لغت ہے لیکن وہ ایک انگریز (فیلن صاحب) کی تحریک کا نتیجہ اور حیدرآباد کی علمی قدر دانی کا پرتو ہے۔ امیر اللغات اس سے بہتر لکھی جانے والی تھی لیکن وہ نا قدردان رئیسوں کے ہاتھوں میں پھنسی ہے۔

اگر ترتیب جدید کا سوال چھوڑ دیجیے تو عربی و فارسی کے لغات بھی اردو میں موجود ہیں، کئی زبانوں کے مشترک ضخیم لغت بھی لکھے گئے ہیں، میڈیکل اور قانونی ڈکشنری بھی اردو میں موجود ہے۔ جدید علوم و فنون پر اردو میں اس کی بیچارگی اور کسمپرسی پر نظر رکھ کر کم کتابیں نہیں لکھی گئی ہیں، تقریباً ہر فن پر دو ایک کتابیں اردو میں موجود ہیں لیکن وہ گمنامی کے پردے میں چھپ کر رہ گئی ہیں۔ ہم نے ان میں سے کچھ کتابوں کی فہرست “اسلامی ہندوستان کے عہد آخر” میں دی تھی، بقیہ کتابیں جو غدر کے بعد لکھی گئی ہیں ان کی فہرست بھی زیر نظر و تلاش ہے۔

اس تمام یاوہ گوئی اور دراز نفسی سے مقصود یہ ہے کہ اردو زبان کی حقیقی ترقی اس وقت تک ناممکن ہے جب تک حکومت اپنے نظام تعلیمی میں تغیر نہ کرے یا ہم اپنی مادری زبان کی پرستش کی وہ مثال نہ پیش کریں جو سرزمین بنگالہ کے جادوگر اور مہاراشٹر کے سورما اپنی اپنی زبانوں کے متعلق پیش کر رہے ہیں۔ اگر یہ دونوں صورتیں ممکن نہیں تو پروفیسر براؤن کے اس حکم کی ہم کیوں کر تعمیل کر سکتے ہیں کہ اردو فارسی اور عربی کی لاکھوں جلدی “لغات المبتدی” کی حیثیت سے مرتب کی جائیں اور اس کثرت سے شائع کی جائیں کہ بچہ بچہ کے ہاتھوں میں ہوں۔


(معارف ستمبر 1917ء)