زاہد کے دل میں بت ہے مسلماں نہیں رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زاہد کے دل میں بت ہے مسلماں نہیں رہا
by جمیلہ خدا بخش

زاہد کے دل میں بت ہے مسلماں نہیں رہا
یہ برہمن ہے صاحب ایماں نہیں رہا

ملتے ہیں ہاتھ یاس سے دست جنوں مرے
افسوس کوئی تار گریباں نہیں رہا

صد شکر اپنے ساتھ دل اس کو بھی لے گیا
جو چھیڑتا تھا ہم کو وہ ارماں نہیں رہا

تصویر یار مجھ کو تصور بنا چکا
پر شکر ہے خدا کا پریشاں نہیں رہا

پہنچا دیا صبا نے اسے کوئے یار میں
اپنا غبار بے سر و ساماں نہیں رہا

لب بستہ دفعتاً جو ہوا زخم دل مرا
دلبر کے خوان کا وہ نمکداں نہیں رہا

انسانیت ہے جس میں دلا ہے وہ آدمی
حیوانیت ہے جس میں وہ انساں نہیں رہا

افشا یہ راز عشق ہوا میری آہ سے
جس کو چھپا رہے تھے وہ پنہاں نہیں رہا

عاشق کی تربتوں کو مٹا کر یہ کہہ دیا
لو اب نشان گور غریباں نہیں رہا

اپنی صدا سنا کے ہر اک یاں سے چل بسا
گلشن میں کوئی مرغ خوش الحاں نہیں رہا

جو قیدئ محن تھے جمیلہؔ وہ چل بسے
زنداں میں کوئی صاحب زنداں نہیں رہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse