زاہد نہ کہہ بری کہ یہ مستانے آدمی ہیں
زاہد نہ کہہ بری کہ یہ مستانے آدمی ہیں
تجھ کو لپٹ پڑیں گے دیوانے آدمی ہیں
غیروں کی دوستی پر کیوں اعتبار کیجے
یہ دشمنی کریں گے بیگانے آدمی ہیں
جو آدمی پہ گزری وہ اک سوا تمہارے
کیا جی لگا کے سنتے افسانے آدمی ہیں
کیا جرأتیں جو ہم کو درباں تمہارا ٹوکے
کہہ دو کہ یہ تو جانے پہچانے آدمی ہیں
مے بوند بھر پلا کر کیا ہنس رہا ہے ساقی
بھر بھر کے پیتے آخر پیمانے آدمی ہیں
تم نے ہمارے دل میں گھر کر لیا تو کیا ہے
آباد کرتے آخر ویرانے آدمی ہیں
ناصح سے کوئی کہہ دے کیجے کلام ایسا
حضرت کو تا کہ کوئی یہ جانے آدمی ہیں
جب داور قیامت پوچھے گا تم پہ رکھ کر
کہہ دیں گے صاف ہم تو بیگانے آدمی ہیں
میں وہ بشر کہ مجھ سے ہر آدمی کو نفرت
تم شمع وہ کہ تم پر پروانے آدمی ہیں
محفل بھری ہوئی ہے سودائیوں سے اس کی
اس غیرت پری پر دیوانے آدمی ہیں
شاباش داغؔ تجھ کو کیا تیغ عشق کھائی
جی کرتے ہیں وہی جو مردانے آدمی ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |